بجٹ اور خواتین کی خودانحصاری
ہر سال بجٹ آتا ہے جس میں نئے اعدادو شمار دئیے جاتے ہیں۔ نئے بجٹ کے بعد بھی غریب کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ 76سال کی تاریخ بتارہی ہے کہ ہر سال مہنگائی کا ایک نیا طوفان آتا ہے اور غریب مزید دِگرگوں ہوتا چلا جاتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا بجٹ میں خواتین کی ترقی کے لیے منصوبہ رکھا جائے گا؟ پاکستان میں پہلے ہی خواتین کی تعلیم کی شرح بہت ہی کم ہے۔ خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں۔ کسی بھی ملک یا ریاست کی معاشی ترقی میں خواتین کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اس طرح اگر خواتین کو بااختیار بنادیا جائے تو پاکستان میں بھی بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ماہرین کئی بار ثابت کرچکے ہیں کہ اصناف کے درمیان فرق پست معاشی افزائش کا بڑا سبب ہے۔ ورلڈ اکنامکس فورم کے مطابق اصناف کے درمیان فرق کے عالمی انڈکس پر پاکستان دنیا کے 149ممالک میں 148 ویں نمبر پر آتا ہے۔ ہمارے ملک کی خواتین کو لاتعداد مسائل و مشکلات کا سامنا ہے۔ قومی بجٹ کو پیش کرنے کے لیے دنیابھر میں ایک سمت متعین کی جاتی ہے مگر یہاں تو بجٹ صرف اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہے۔ 76سالوں میں ایسی راہ متعین نہیں کی گئی جس میں قرضوں کا بوجھ کم ہو۔ غربت اور مہنگائی ہے ایک کمانے والا اور کئی کھانے والے ہیں۔ اس میں زیادہ تر غریب خواتین گھر گھر کام کاج کر کے گھر والوں کے لیے رزق کما کر لاتی ہیں جس میں ان کا گزربسر اس مہنگائی کے دور میں انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ ایسی بھی خواتین ہیں جو سڑکوں پر مانگ رہی ہیں اور اپنا گھر چلا رہی ہیں اور کچھ خواتین ایسی ہیں جو رات کے اندھیرے میں جسم فروشی کا کام کرکے گھر چلا رہی ہیں۔
افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت پر حوصلہ افزائی کے لیے ضروری ہے کہ بجٹ میں مؤثر پروگرام اور پالیسیاں وضع کی جائیں اور ان کا نفاذ کیا جائے۔ اُبھرتے ہوئے معاشی دباؤ اور اقتصادیات کی اس جنگ میں حالات کو نیا رُخ دینا چاہیے اور سماجی ترقی کے لیے خواتین کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا جائے اور انہیں قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جائے۔
بنگلہ دیش میں اُنہوں نے خواتین کے لیے ہنر مند ماڈل متعارف کروایا ہے جس میں اُنہیں ہنر دیا جاتا ہے۔ وہاں خواتین کو عملی زندگی میں بھرپور کردار ادا کرنے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے جو اب چاردیواری سے باہر نکل کر بھی کام کررہی ہیں۔
بنگلہ دیش میں ریڈی میڈگارمنٹس، خوراک کی پروسیسنگ، چمڑے، دستکاری اور چائے کی فیکٹریوں میں خواتین کی بڑی تعداد ملازم ہے۔ دنیا بھر سے زرِمبادلہ آتا ہے اسی طرح عرب ممالک معاشی دھارے میں بتدریج خواتین کی شمولیت یقینی بنا رہے ہیں۔ ہمارے ماڈل کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بند کرنا چاہیے۔ اس وظیفہ پر 450ارب روپے بانٹ دئیے جاتے ہیں۔ اس سے خواتین کی خودانحصاری کم نہیں ہوگی۔ انہی 450ارب سے انڈسٹریز لگائی جائیں اور انہیں وہاں ملازمت دی جائے اور خواتین کی خودانحصاری کے لیے اقدامات کئے جائیں۔ کل قومی اسمبلی میں نیا بجٹ پیش ہونے جارہا ہے۔ مختلف چیزیں ہیں جن کا دباؤ حکومت پر ہے۔ IMF کا بھی دباؤ ہے۔ 52فیصد آبادی خواتین کی ہے، 14-13کروڑ خواتین ہیں۔ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام میں اربوں روپے دے کر بھی معاشرتی سطح پر ان کی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی جاسکی۔ یہاں ہم بینکوں میں لمبی لمبی قطاریں لگا کر چلچلاتی گرمی اور سخت سردی میں بے نظیر انکم سپورٹ میں وظیفے بانٹ رہے ہوتے ہیں کیا وظیفوں سے کسی ملک کی معیشت میں ترقی ممکن ہوسکتی ہے؟ اگر اسی رقم کو خواتین کی ترقی اور انڈسٹری کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے تو معاشی ترقی میں ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ ناصرف معیشت بلکہ خواتین کا مقام ملکی ترقی میں نمایاں نظر آنے لگے گا۔ ہمیں اپنی خواتین کو باوقار اور بااختیار بنانے کے لیے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کیرئیر کونسلنگ سینٹرز بنانا چاہئیں جہاں لڑکیوں کو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کاروبار شروع کرنے کی تربیت اور مارکیٹ کی ڈیماند کے مطابق شعبہ جات اختیار کرنے میں مدد ملے۔ آج ہمارے ملک کی اہم ضرورت ہے کہ خواتین کو وظیفے دینے کی بجائے ملازمت کی طرف لایا جائے خاص طور پر اُن شعبوں میں جہاں خواتین بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں۔ کم پڑھی لکھی خواتین بھی بہت سا کام کرسکتی ہیں۔ آج بھی ہمارے ملک کے بہت سے علاقوں میں خواتین تعلیم کے لیے ترستی ہیں اُن سب خواتین کا خواب تبھی شرمندہئ تعبیر ہوسکتا ہے اگر ہم اُن کے لیے ترقی اور خوشحالی کے مواقع فراہم کریں۔ آج اُن کی مائیں بیٹیاں گھر سے نکل کر کام کریں گی تو وہ اپنے کل کو خوبصورت بنا سکیں گی۔ بنگلہ دیش میں کسی زمانے میں خواتین تعلیم حاصل نہیں کرسکتی تھیں مگر آج وہاں اس جدید دور میں تعلیم عام ہوچکی ہے اور اب وہاں عورتیں آسانی سے ملک میں ملازمتوں کو اختیار کر رہی ہیں۔ یہی خواتین اب بین الاقوامی کاروبار بھی کررہی ہیں۔ وہاں کی خواتین مختلف ملکوں سے رابطہ کرکے اپنی اپنی صنعتوں کو مزید فعال بنا رہی ہیں۔ ہماری حکومت اگر ان تمام حقائق کی روشنی میں اپنے ملک کی خواتین کے لیے اُن کی خودانحصاری کے لیے بجٹ میں کچھ نئی پالیسیاں بنائے تو ہماری خواتین گرمی اور سردی میں بینکوں کے باہر قطار لگا کر کھڑے ہونے کی بجائے باعزت طریقے سے ملازمت کرکے اپنا گھر چلا سکیں گی چاہے وہ کم تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہوں۔
بجٹ میں جو بھی پالیسی بنائی جاتی ہے اس میں کبھی بھی کسی غریب کی غربت کم نہ ہوسکی بس غریب کے مسائل میں اضافہ ضرور ہوا۔ ہمارے غریب عوام اشیاء کو خریدنے کے لیے عموماً سستے بازاروں کا رُخ کرتے ہیں کہ جہاں اُنہیں ضرورت کی اشیاء سستے داموں مل سکیں،اُن بازاروں پر حکومت بے حد پیسہ خرچ کررہی ہے اگر انہی اشیاء کو منڈیوں ہی میں قیمت طے کرکے سستا کردیا جائے تو عام بازاروں میں اُن کی قیمت کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جب تک بے نظیرانکم سپورٹ جیسے پروگراموں اور سستے بازاروں جیسے پروگرام چلتے رہیں گے غریب کے حصے کبھی خوشحالی نہیں آئے گی۔
حکومت سے یہی درخواست ہے کہ ملک کی خواتین کو باوقار، باعزت طریقے سے روزگار کمانے کے لیے باعزت مواقع فراہم کیے جائیں اور پاکستان کی خواتین کو بنگلہ دیش کی طرح ایک نیا ہنر ماڈل دیا جائے جس سے وہ ہمیشہ اپنے ہنر کو کام میں لاتے ہوئے ملک کی معیشت میں ایک بڑا انقلاب برپا کرسکیں۔