معاشرتی روئیے بدل گئے امریکہ اور پاکستان کے پیشہ ور ماحول میں زمین آسمان کا فرق تھا، میں بہت خوش تھا کہ پوتے پوتیوں کے ساتھ رہوں گا
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:222
بالآخر 2019 ء میں انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں بہت خوش تھا کہ میں اس وقت تک ان کے اور اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ رہوں گا جب تک وہ چاہیں گے۔ عمر کے پاس اپنے شعبے میں بہت تجربہ تھا اور یہاں آئی ٹی کے شعبے کے اکثر افراد اسے جانتے بھی تھی۔ لیکن وہ پاکستان اور اس کے ماحول میں بالکل نیا تھا۔درحقیقت وہ 1995 میں لمز یونیورسٹی میں مختصر قیام کے بعد اب پاکستان آ رہا تھا اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا تھا۔ یہاں کا سارا ماحول اور معاشرتی روئیے بدل گئے تھے۔ اور پھر امریکہ اور پاکستان کے پیشہ ور ماحول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اس نے کچھ عرصے تک مقامی اداروں کے ساتھ کنسلٹینسی کا کام کیا پھر اسے ایک بڑے بینک میں چیف ڈیجیٹل افسر کے عہدے پر ملازمت مل گئی۔ یہ ایک بہت بڑی اور ذمہ دارانہ ملازمت تھی جو وہاں کے چیف ایگزیکٹو آفسر کے بعد سب سے اہم تقرری تھی۔ یہ بینک اپنے آئی ٹی نظام کی تنظیم نو کرنا چاہتا تھا جس کے لیے ضروری تھا کہ ٹیم میں اہلیت، تعلیم اور تجربے کے بناء پر نئی بھرتیاں کی جاتیں۔ میں نے اس کو خبردار بھی کیا تھا کہ اسے ان ملازمین کی طرف سے سخت قسم کی مزاحمت کے لیے تیار رہنا چاہئے جو پہلے سے ہی اس نظام میں گھسے بیٹھے ہیں۔ ان کو یہ فکر پڑ جاتی ہے کہ نئی ٹیم کی آمد سے ان کی ملازمتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اور جب کام اس کی منشاء کے مطابق نہ ہوا تو 7 ماہ بعد ہی وہ استعفیٰ دے کر گھر آگیا۔ بینک کی ملازمت کے دوران ہی اس کے ساتھ ایک اورمعروف آئی ٹی کمپنی نے رابطہ کیا تھا،جو عمر کے ہی شعبے سے تعلق رکھتی تھی اور جس کے دفاتر سلیکون ویلی اور تائیوان میں تھے، اور اپنے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اس نے کمپنی کے ساتھ کنسلٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصے بعد ایک اور کمپنی نے،جو شنگھائی اور سلیکون ویلی میں کام کر رہی تھے، اسے کنسلٹنسی کا کام کرنے کی پیشکش کی تھی اس نے دونوں کمپنیو ں کے ساتھ کچھ مہینے کام کیا۔ اب مسئلہ یہ آن پڑا تھا کہ ان شہروں یعنی تائیوان، شنگھائی، لاہور اور کیلیفورنیا کے درمیان وقت کا بہت زیادہ فرق تھا۔ اس طرح اس کوسب جگہ وقت دینے کے لیے عملی طور پر24 گھنٹے کمپیوٹر پر ہی بیٹھے رہنا پڑتا تھا۔ دونوں کمپنیاں اس کے کام سے متاثر تھیں اور انھوں نے اسے کل وقتی ملازمت کی پیشکش بھی کی تھی۔ اس نے بہرحال دوسری کمپنی کو چن لیا جہاں اس کو سینئر نائب صدر کا عہدہ تفویض کر دیا گیا جس کی وجہ سے وہ امریکہ اور پاکستان کے بیچ بار بار سفر کر سکتا تھا۔
عمر، رابعہ اور اپنے پوتے میکائل اور پوتی نور کے ساتھ رہنا ایک بہت ہی خوشی کا مقام تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں باقاعدہ طور پر ان کے ساتھ رہ رہا تھا اور مجھے ان سب کی رفاقت میں بہت لطف آتا تھا۔ مجھے رابعہ کے بارے میں کچھ علم تو تھا کہ وہ ایک اچھی لڑکی ہے لیکن اس کے صحیح جوہر تو یہاں آ کر کھلے۔ وہ ایک امریکی کمپنی میں کل وقت ملازمت کر رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ گھر داری بھی سنبھال رہی تھی۔ بچوں کا اور ان کی تعلیم و تربیت کا بھی خیال رکھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بچے اپنے سکول میں ہمیشہ کامیابیوں کی آخری سیڑھی پر رہتے تھے اور پڑھائی اور کھیلوں میں ہمیشہ اول آتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اولین ترجیح سمجھ کر میری ضروریات کا بھی خیال رکھتی تھی۔ میں بھی اس کو اپنی بیٹیوں ہی کی طرح چاہتا تھا۔کمپنی میں بھی اس کی کارکردگی بہت متاثر کن تھی۔ اس کی خدمات کو تسلیم کیا جاتا تھا اور اکثر اسے اعزازات اور انعامات سے نوازا جاتا تھا،کیونکہ وہ اپنے کام کو انتہائی دیانت داری اور ذمہ داری سے نبھاتی تھی۔ میکائل کو باہر کھیلنا بہت پسند تھا جب کہ نور تخلیقی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتی تھی جیسے پینٹنگ یا پہیلیاں بوجھنا یا کھیل کھیل میں مشکل مسائل کو حل کرنا وغیرہ۔ ہم یہ پرلطف زندگی گزار رہے تھے کہ عمر نے دوبار امریکہ میں مستقل قیام کا منصوبہ بنایا جو کہ اس کی ملازمت کے لیے ضروری قرار پایا تھا۔ اس کے کیرئیر اور بچوں کی تعلیم میرے نزدیک بہت ضروری تھی اور اس کو میری مکمل حمایت حاصل تھی۔11 جولائی 2022 ء کو وہ تو امریکہ لوٹ گئے اور میں ایک بار پھر اپنی تنہائیوں میں واپس آگیا۔ یوں لگا جیسے
دو گھڑی بہلا گئی پرچھائیاں
پھر وہی ہم ہیں وہی تنہائیاں
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔