امریکہ کی 19 ریاستوں میں فحش مواد پر پابندیاں، وی پی این کا استعمال بڑھ گیا
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) امریکہ کی 19 ریاستوں میں ایسے قوانین منظور کیے گئے ہیں جو فحش مواد تک رسائی کو محدود کرتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت فحش ویب سائٹس پر عمر کی تصدیق کے لیے سرکاری شناختی کارڈز یا چہرے کی سکیننگ جیسے طریقے لازمی قرار دیے گئے ہیں۔
سی این این کے مطابق ان قوانین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد بچوں کو فحش مواد دیکھنے سے بچانا اور ان کی معصومیت کو محفوظ رکھنا ہے۔ ٹیکساس کے قانون کے مصنف ریپبلکن رکن اسمبلی میٹ شاہین کے مطابق یہ اقدامات "فحش مواد کی لت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔"دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قوانین آزادیِ اظہار کو متاثر کرتے ہیں اور صارفین کی پرائیویسی کے لیے خطرہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات بالغ افراد کے لیے قانونی طور پر دستیاب مواد تک رسائی کو بھی محدود کر سکتے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ بدھ کے روز ریاست ٹیکساس کے قانون کے آئینی جواز پر سماعت کرے گی۔ کیس کا فیصلہ نہ صرف ٹیکساس بلکہ دیگر ریاستوں کے قوانین کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
سنہ 1997 کے تاریخی مقدمے "رینو بمقابلہ اے سی ایل یو " میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ حکومت نابالغوں کو نقصان دہ مواد سے بچانے کے لیے بالغوں کی آزادیِ اظہار کو غیر ضروری طور پر محدود نہیں کر سکتی۔ اس فیصلے کے تحت موجودہ قوانین کے آئینی ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
نئے قوانین کے بعد کئی بڑی فحش ویب سائٹس نے ان ریاستوں میں کام بند کر دیا ہے جہاں قوانین نافذ ہیں۔ اس کے نتیجے میں بعض ریاستوں میں وی پی این ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا ہے تاکہ جغرافیائی پابندیوں کو نظرانداز کیا جا سکے۔ماہرین کے مطابق اگر سپریم کورٹ موجودہ قوانین کو برقرار رکھتی ہے تو یہ فحش مواد کے حوالے سے قانونی نظائر کو تبدیل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے پروفیسر جیفری سٹون کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایک طویل قانونی جنگ کا حصہ ہے جس کا مقصد بچوں کو نقصان دہ مواد سے بچانا ہے، لیکن اس کے بالغوں کے حقوق پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اگر سپریم کورٹ ان قوانین کو برقرار رکھتی ہے تو یہ امکان ہے کہ ملک گیر سطح پر ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ناقدین کے مطابق ان اقدامات کا مقصد بچوں کی حفاظت کے نام پر بالغوں کی آزادی کو محدود کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس مقدمے کا فیصلہ آئندہ موسم گرما میں متوقع ہے، جو امریکہ میں آزادیِ اظہار، پرائیویسی اور آن لائن مواد کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔