کندیا ں میں لال آندھی اکثر چلتی، اڑتے ریت کے ذرات اسے خوفناک بنا دیتے، آندھی میں کبھی جن بھوت کا سامنا تو نہ ہوا البتہ انسان نما جن ضرور دیکھے
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:47
کندیاں۔۔ ریت اور نہر؛
شور کوٹ سے kazer engineers اپنے اگلے پراجیکٹ کے لئے سپین چلے گئے۔ والد نے ان کا ریگولر سٹاف ممبر بننے سے انکار کر دیا تھا۔ انہیں کندیاں تریموں ہیڈ سے نکالی جانے والی نہر کے پراجیکٹ پر نوکری مل گئی۔ یہ فرنچ کمپنی تھی۔ ہم کندیاں چلے آئے یہ غالباً 1966ء کی بات تھی۔یہاں کمپنی کی رہائش گاہیں ابھی زیر تعمیر تھیں۔ ابا جی نے کندیاں قصبہ میں ایک وسیع گھر کرائے پر لیا جو کندیاں ریلوے سٹیشن سے زیادہ دور نہ تھا۔ وسیع کچا راستہ اس گھر تک آتا تھا۔اُس دور میں یہ کوئی گنجان جگہ نہ تھی اور گھر ایک دوسرے سے ذرا فاصلے پر تھے۔ ہمارے سامنے والے گھر میں بڑی بڑی مونچھوں والے صاحب اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی بیٹی کا ہمارے گھر آنا جانا ہو گیا۔ وہ اکثر میری والدہ کے پاس چلی آتی اور گپ شپ لگاتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے کہتے سنا کہ”میرے والد سے چند قتل ہو گئے تھے۔ ہم اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر یہاں آ ن بسے ہیں۔ میرے والد لوگوں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے۔پتہ نہیں کیوں آپ کے گھر آنے سے نہیں روکتے۔“اس خاتون کے والد بھی ہم بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ہمیں ان سے زیادہ اُن کی بڑی بڑی مونچھوں سے ڈر لگتا تھا۔ کندیاں ریتلا علاقہ تھا۔تھل کے ریگستان کا حصہ۔ بارش برستی تو رتیلی زمین پر بیر بہوٹیاں اپنی سرخ مخملی چادر اوڑھے گیلی ریت پر رینگنے لگتی تھیں۔ہم بہن بھائی ریت کے گھروندے بناتے اور ان بیر بہوٹیوں کو ہاتھ کی ہتھیلی پر اٹھا کر ریت کے گھروندوں میں سجاتے تھے۔ کسی معمولی بات پر ہم آپس میں لڑ پڑتے تو دوسرے کا ریت کا گھروندا توڑ کر بھاگ جاتے تھے۔ یہ لڑائی پیار اور محبت کی لڑائی ہوتی جو گھر پہنچتے ختم ہو چکی ہوتی تھی۔ گھر سے ابا جی کا دفتر کوئی 2میل دور تھا اور وہ اپنے پسندیدہ سائیکل پر ہی دفتر آتے جاتے تھے۔ یہاں بارش برس جاتی تو پانی چند منٹ میں ہی ریت میں جذب ہو جا تا تھا البتہ آندھی بڑی شدید چلتی تھی۔ لال آندھی ہی اکثر چلتی اور اس میں اڑتے ریت کے ذرات اسے خوفناک بنا دیتے تھے۔ ایسے آندھی سے ڈر ہی لگتا تھا۔ امی جی اور نانی کہا کرتی تھیں؛”بچوں کو ایسی اندھی میں باہر نہیں جانا چاہیے کہ اس میں جن بھوت بھی ہوتے ہیں جو بچوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔“ مجھے اس آندھی میں کبھی جن بھوت کا سامنا تو نہ ہوا البتہ انسان نما جن ضرور دیکھے جو بچوں کو اغواء کر لیتے تھے۔ بے شک دنیا کی سب سے خطرناک چیز اور بھوت انسان خود ہی ہے۔
کندیاں کی ایک اور یاد آک“ کا پودا تھا جو اس صحرائی زمین پر بہتات میں پایا جاتا اور ہم اس کاپتہ توڑ کر اس سے نکلنے والے سفید محلول کو”آک کا دودھ“کہتے۔ اس کا ذائقہ بڑا ترش ہوتا تھا۔
کمپنی کی رہائش گاہ میں؛
کچھ عرصہ اس گھر میں قیام کے بعد ہم کمپنی کی کالونی منتقل ہو گئے۔ جہاں ابا جی کو ایک مناسب گھر ملا۔ یہاں 3 طرح کے گھر تھے۔ ایک فرانسسی ملازمین کے لئے، دوسرے پاکستانی افسران کے لئے اور تیسرے ورکرز کے لئے۔میرے والد کو دوئم کیٹگری کا گھر ملا۔یہیں کمپنی کے سکول میں ہم تینوں بہن بھائی پڑھنے جاتے تھے۔ یہ مخلوط تعلیمی ادارہ صرف پاکستانی طالب علموں کے لئے تھا۔ میرا داخلہ چوتھی جماعت میں ہوا جہاں روبینہ، سائرہ اور نجمہ میری ہم جماعت تھیں۔شروع دن سے ہی میں پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ ہمیشہ کلاس میں اول آتا۔ میں شروع سے ہی اپنی والدہ کی نسبت والد کے بہت قریب تھا۔ کلاس ٹیسٹ یا کوئی اور امتحان ہوتا ابا جی سے کچھ نہ چھپاتا اور نہ ہی زندگی بھر اُن سے کبھی جھوٹ بول سکا۔ ایک بار کلاس ٹیسٹ میں نجمہ کے نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔میں نے گھر آکر ابا جی کو اپنی رپورٹ دکھائی اور یہ بھی بتایا کہ”نجمہ کے نمبر مجھ سے زیادہ ہیں۔“وہ ناراض ہوئے اور بولے؛’کیسے ایک لڑکی تم سے زیادہ نمبر لے گئی۔“ یہ بات ایسی ذھن نشین ہوئی کہ پھر کبھی بھی کوئی لڑکی پڑھائی میں مجھے سے آگے نہ نکل سکی۔ ویسے مجھے سائرہ اچھی لگتی تھی۔میری پہلی یک طرفہ محبت۔ وہ سانولی سلونی من موہنی لڑکی تھی۔ وہ کم کم ہی بات کرتی تھی اور مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ یہ چاہت یک طرفہ ہی تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔