300سال پہلے یورپ اور امریکہ میں سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا زندگی کی دوڑ اتنی پیچیدہ نہیں ہوئی تھی، لوگ گھوڑوں اور بگھیوں پرہی طویل سفر کرتے تھے
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:6
باب اوّل
ریل چلتی ہے
ابتداء
یہ کوئی 300 برس پہلے، 1712ء کی بات ہے تب یورپ اور امریکہ میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک اورسکون سے چل رہا تھا اور زندگی کی دوڑ بھی ابھی اتنی پیچیدہ نہیں ہوئی تھی۔ لوگ باگ گھوڑوں اور بگھیوں پرہی طویل سفر کیا کرتے تھے اورسامان کی ترسیل کے لیے بھی وہ گھوڑوں کے پیچھے چھکڑے جوتے اِدھر اْدھر دوڑے پھرتے تھے۔ امریکیوں نے تو اپنا ڈاک کا نظام بھی گھڑ سوار ہرکاروں کو سونپ رکھا تھا۔جنھوں نے اپنی منزل کی راہ گزر پرجا بجا چوکیاں قائم کر رکھی تھیں اور اْن کے بیچ وہ ڈاک کے تھیلے اْٹھا کر بگٹٹ بھاگتے تھے، اگلی چوکی پر تازہ دم گھوڑا اور اس کا سوارتیار کھڑا ہوتا تھا جو اس سے ڈاک کا تھیلا جھپٹ کر آگے بھاگ جاتا۔ صدیوں سے اس نقل و حمل کے اس سلسلے کو ہٹے کٹے گھوڑے ہی رواں دواں رکھتے تھے۔ ہندوستان میں یہ کام گھوڑوں کے ساتھ ساتھ اونٹ، ہاتھی اور بیل بھی کیا کرتے تھے۔ جن کو گاڑیوں میں جوت دیا جاتا تھا۔ یوں ایک سواری بھی ہاتھ آ جاتی تھی اور باربرداری کا سامان بھی ادھر اْدھر کر لیا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ اور کچھ نہ تھا جو انسان کا ہاتھ بٹانے آتا۔ ابھی تک اْس نام نہادصنعتی انقلاب کا، جس نے ساری دْنیا کا نظام ہی تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا، دور دورتک پتہ نہیں تھا۔
کام کی رفتار کوبڑھانے اور زیادہ بوجھ کھینچنے کی خاطروہ حسب ضرورت گھوڑوں اور چھکڑوں کی تعدادبڑھا دیا کرتے تھے اوراکثر وہ لوگ سوچا کرتے تھے کہ نجانے وہ دن کب آئے گا جب گھوڑوں کے بجائے کچھ مشینیں ان کی گاڑیوں اور چھکڑوں کو کھینچا کریں گی، تب تو ان کی رفتار بھی زیادہ ہو جائے گی اور تھکنے کے لیے گھوڑے بھی نہیں ہوں گے۔ ہاں تب تک کوئلے اور دیگر معدنیات کی کانیں جگہ جگہ کھل چکی تھیں اور اْن میں دن رات کھدائی کا کام جاری رہتا تھا۔ یہ کوئلہ بھٹیوں میں جھونک کر توانائی اور حرارت پیدا کی جاتی تھی۔جس سے چھوٹے موٹے صنعتی کام چلتے رہتے تھے۔
بسا اوقات کوئلے کی ان کانوں میں مطلوبہ گہرائی تک کھودنے کے دوران یا بعد میں پانی رِس رِس کر باہر آجاتا اور جمع ہو کر نہ صرف مزید کھدائی کو نا ممکن بنا دیتا تھا بلکہ وہاں گہرائیوں میں کام کرنے والے کان کنوں کے لیے خطرہ بھی بن جاتا تھا۔ ویسے بھی لمبے بوٹ پہن کرہمہ وقت پانی میں کھڑے رہ کر کھدائی کرنا انتہائی دشوار کام تھا۔ مزدور ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر اکثر ایک دوسرے کو اپنے زخم دکھاتے رہتے تھے۔
اس ساری صورت حال سے نبٹنے کا ایک ہی حل تھا کہ سیکڑوں فٹ گہری کانوں میں بھرے ہوئے اس پانی کو نکال کرمسلسل باہرپھینکا جائے تاکہ وہ جگہ خشک رہے جہاں کھدائی کا عمل جاری رہتا تھا۔اس کام پر مامور مزدور ہر وقت بالٹیوں یابڑے بڑے ڈولوں میں پانی بھرتے، منہ میں انگلیاں گھسیڑ کر بلند آواز میں سیٹی بجاتے اور پھراْوپر کھڑے ہوئے لوگ انھیں اپنی قوت بازو سے یا چرخیوں پر رسے ڈال کر گھوڑوں کی مدد سے باہر کھینچ لیتے، یہ کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ دن رات چلتا رہتا تھا۔کبھی پانی کی نکاسی میں تاخیر ہو جاتی تو کان کے فرش پر پانی کھڑا ہو جانے سے کام سست پڑ جاتا یا رْک جاتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔