شرفاء کا جہاں اور غلاموں کا جہاں اور

بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے چند روز پہلے انکشاف کیا تھا صوبے میں 30 کروڑ روپے زکوٰۃ تقسیم کرنے کے لئے ڈیڑھ ارب سے زائڈ خرچ ہو جاتے ہیں، تقریباً80گاڑیاں اور لاتعداد دفاتر اور سینکڑوں کا عملہ اس کام پر مامور ہے اُن کی تجویز تھی کہ یہ کام تو ڈپٹی کمشنروں اور سکولوں کی انتظامیہ کے ذریعے بغیر کسی خرچ کے کیا جا سکتا ہے۔میرا خیال تھا اُن کے اِس انکشاف کے بعد باقی تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی ایسے اعداد و شمار سامنے لائیں گے،لیکن ابھی تک ایسی کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی،بات صرف عملے کی نہیں یہاں تو زکوٰۃ و عشر کی باقاعدہ ایک وزارت قائم ہے،جس کے وزیر بھی اتنی ہی مراعات لیتے ہیں جتنی دوسرے وزراء۔خیال تو بہت اچھا ہے کہ رقم بچا کر مزید مستحقین میں تقسیم کی جائے،مگر عمل کون کرے،یہاں تو مرکز میں نئے شامل ہونے والے وزراء میں پرانی گاڑیوں کی وجہ سے تشویش پائی جا رہی ہے اور حکومت کو18 نئی گاڑیاں خریدنے کے لئے کمیٹی بنانا پڑی ہے۔یہ اہلِ اختیار سمجھتے ہیں پاکستان ایک قارون کا خزانہ ہے جتنا چاہو خرچ کرو، ختم نہیں ہو گا۔مال و زر ایسے لٹایا جاتا ہے جیسے بارات میں نو دولتیے پیسے لٹاتے ہیں۔اگر اربابِ اقتدار کو اپنی جیب سے یہ سب کرنا پڑے تو شاید دو آنے بھی خرچ نہ کریں،مگر مالِ مفت دِل بے رحم کی کیفیت اُس وقت جنم لیتی ہے جب سب کچھ سرکار کے پیسے سے ہوتا ہو۔پاکستان میں نجانے کتنے ہی محکمے ایسے ہیں جنہیں سفید ہاتھی یا بھرتی کے محکمے کہا جا سکتا ہے۔ سرفراز بگٹی تو زکوٰۃ کے محکمے کو سامنے لے آئے ہیں،حقیقت یہ ہے کوئی اس بارے میں سوچنے کو تیار نہیں،بچت کیسے اور کہاں سے ہو سکتی ہے۔کل ایک صاحب اس خبر پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکہ یو ایس ایڈ کے83 فیصد پروگرام منسوخ کر رہا ہے،اس کی تصدیق امریکی وزیر خارجہ مارکو بیورو نے کر بھی دی ہے۔ اُدھر امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی میں یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ پاکستان میں 126 سکولوں کی تعمیر کے لئے 130ملین ڈالرز کی خطیر امداد دی گئی تھی لیکن سروے رپورٹ کے مطابق ایسے کسی ایک سکول کی تعمیر کا بھی ثبوت نہیں ملا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایسی ملنے والی امداد رقوم کے ساتھ کیا کچھ ہوا اس پر چنداں تبصرے کی ضرورت نہیں۔اقوام متحدہ، یونیسیف،یو ایس ایڈ، جاپان، چین، یورپ سے ملنے والی ترقیاتی کاموں کے لئے گرانٹس کی جو بندر بانٹ ہوئی ہے اس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک شعبہ بھی بہتر نہیں ہو سکا۔سندھ میں پینے کے صاف پانی کے لئے اربوں ڈالرز امداد آتی رہی مجال ہے ایک قطرہ صاف پانی بھی نکلا ہو۔یہ صورت حال ہماری قومی بے حسی کو ظاہر کرتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے دنیا کو تو یہ احساس ہے کہ 25کروڑ انسانوں کے اس ملک کو غربت، پسماندگی، ناخواندگی اور صحت کی زبوں حال صورت حال کو ختم کرنے کے لئے امداد کی ضرورت ہے، اس لئے دِل کھول کر امداد دی جائے مگر ہمارے حکمران،ہمارے افسر اور ہماری اشرافیہ یہ سمجھتی ہے ایسی گرانٹس پر عوام کا حق کم اور ہمارا زیادہ ہے۔
ایک بار معاشیات پڑھانے والے ایک برطانوی پروفیسر ملتان آئے۔اُن کے میزبان ایک بڑے صنعتکار تھے جو اُن کے ساتھ زمانہئ طالب علمی میں پڑھتے رہے تھے،میرے دوست ہونے کے ناتے انہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ میں برطانوی پروفیسر کو ملتان، لاہور اور اسلام آباد کے وزٹ میں کمپنی دوں۔ برطانوی پروفیسر نے اگلے دن اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں ملتان کا ڈپٹی کمشنر ہاؤس دیکھنا ہے۔میں حیران ہوا اور پوچھا اس کی وجہ، میں تو آپ کو یونیورسٹی لے جانے کا سوچ رہا تھا۔انہوں نے کہا ہم نے برطانیہ میں کلونیل نظام کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس میں ڈسٹرکٹ کلکٹر جسے آپ ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں کی بڑی تفصیل درج ہے کہ کس طرح یہاں برطانوی راج کو قائم رکھنے کے لئے اس نظام کو رائج کیا گیا۔اتفاق سے میرے ایک دوست سی ایس پی افسر اُن دِنوں ملتان کے ڈپٹی کمشنر لگے ہوئے تھے اُن سے بات کی تو انہوں نے کہا یہ گورا کہتا تو ٹھیک ہے۔آج بھی اس عہدے کو پورے نظام پر حاوی رکھا گیا ہے۔وہ گھر دیکھ کر یہ اندازہ لگانا چاہتا ہو گا پاکستان میں انگریزوں کے جانے کی پون صدی مکمل ہونے کے بعد بھی کچھ بدلا ہے یا نہیں۔میں برطانوی پروفیسر کو ڈی سی ہاؤس ملتان لے گیا،ملتان کا ڈپٹی کمشنر ہاؤس شہر کے سب سے مہنگے علاقوں میں موجود ہے جہاں ایک مرلہ زمین کی قیمت بھی ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ڈپٹی کمشنر ہاؤس کو دیکھ کر برطانوی پروفیسر نے بے ساختہ کہا یہ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ سے دس گنا زیادہ بڑا ہے اس نے جب ڈپٹی کمشنر سے پوچھا اس گھر میں آپ کی فیملی کے کتنے افراد رہتے ہیں تو انہوں نے ہنس کر کہا میں اکیلا رہتا ہوں،کیونکہ میری فیملی لاہور میں ہے، میرے بچے وہاں پڑھ رہے ہیں،نوکروں،سکیورٹی کے عملے اور مالی وغیرہ کو وہ بڑی تعداد میں اِدھر اُدھر دیکھ چکا تھا۔اُس نے کہا اب میں کہہ سکتا ہوں،برطانیہ واپس جا کر کہ پاکستان ابھی تک ہمارے کلونیل نظام کے تحت چل رہا ہے۔افسروں اور عوام میں وہی فاصلہ ہے جو برطانوی تسلط کی بنیادی پالیسی تھی۔ایک انگریز افسر کے لئے سرکار اس لئے اتنا کچھ خرچ کرتی تھی کہ اُس کے شہریوں کو یہ احساس رہے وہ غلام ہیں اور چھوٹے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہم نے ان گزرے ہوئے77برسوں میں کچھ بھی تو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔وہی انگریزوں کا چھوڑا ہوا پیٹرن برقرار رکھا ہے۔ حاکم اور رعایا میں فرق برقرار رکھنے کی پالیسی آج بھی پوری شدت کے ساتھ نافذ العمل ہے۔30کروڑ کی زکوٰۃ تقسیم کرنے کے لئے ڈیڑھ ارب بھی اسی لئے خرچ کیا جاتا ہے تاکہ محروموں کو یہ احساس ہو سکے وہ ایک غلام ہیں،جنہیں ریاست پال رہی ہے۔کل صدرِ مملکت آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے طبقاتی تقسیم ختم کرنے کی کوئی بات نہیں کی۔ یہ بھی نہیں کہا ہمیں پون صدی کا دقیانوسی اور استحصالی نظام ختم کرنے کے لئے قانون سازی کرنی چاہئے۔بس یہ کہا کہ سرکاری ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔جیسے یہ ملک صرف پندرہ بیس لاکھ سرکاری ملازمین پر مشتمل ہو، حالانکہ اس کی آبادی اب 25کروڑ سے تجاویز کر رہی ہے،جہاں اشرافیہ اور عام ملازمین کے درمیان واضح امتیازات کی لکیر حائل ہو وہاں صدرِ مملکت اگر یہ کہتے ارکان پارلیمنٹ نے،وزراء نے، صدرو وزیراعظم نے اپنی تنخواہیں بڑھا کر زیادتی کی ہے،پہلے عام سرکاری ملازمین کی بڑھائی جانی چاہیئے تھی،پھر یہ بھی کہتے جس تناسب سے ارکان اسمبلی اور وزراء کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں،اسی تناسب سے عام سرکاری ملازمین کی بھی بڑھائی جانی چاہئیں،مگر وہ ایسا کیسے کہہ سکتے تھے۔ یہ تو اُس بنیادی طبقے کے خلاف بات جاتی ہے جس میں ریاست کو آقا و غلام کی تقسیم کے تحت چلایا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭