اس کے اندر بھوت جاگ اٹھے تھے، اس نے بدمعاش کو اچھا سبق سکھایا تھا
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:73
یورگس کو اس کے پنڈے سے ان تمام جرائم کی بد بو آرہی تھی جو اس نے کیے تھے۔ وہ غصّے سے پاگل ہو گیا۔ اس کے اعصاب کھنچ گئے تھے اور جیسے اس کے اندر بھوت جاگ اٹھے تھے۔ اِس نے اونا کو مجبور کیا تھا۔ اس دردندے نے۔۔۔ اب وہ اس کی گرفت میں تھا۔ اب اس کی باری تھی۔اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ اس نے غصّے میں چیختے ہوئے کونر کو اٹھایا اور اس کا سر فرش پر پٹخ دیا۔
ہر طرف شور مچ چکا تھا۔ عورتیں خوف کے مارے چیخ رہی تھیں اور بے ہوش ہو رہی تھیں۔ آدمی دوڑتے ہوئے جمع ہو رہے تھے۔ یورگس کو اشتعال میں اپنے گردوپیش کا کوئی احساس نہیں تھا۔ اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ لوگ کونر کو چھڑوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آدھ درجن کے قریب لوگ اسے ٹانگوں اور کندھوں سے پکڑ کر کھینچ رہے تھے۔ اسے لگا کہ اس کا شکار اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ وہ ایک دم جھکا اور اپنے دانت کونر کے رخسار میں گاڑ دئیے۔ جب اسے کھینچ کر الگ گیا گیا تو اس کے مونھ سے خون ٹپک رہا تھا اور کھال کے ٹکڑے اس کے دانتوں میں دبے ہوئے تھے۔
انھوں نے اس کی ٹانگیں اور بازو دبوچ کر اسے فرش پر گرا لیا لیکن پھر بھی وہ ان کے قابو نہیں آرہا تھا۔ وہ مچلتے تڑپتے ہوئے خود کو چھڑوانے کی کوشش میں اپنے بے ہوش دشمن پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا۔ مگر اب تک اور بہت سے لوگ کمرے میں آگئے تھے اور سب اسے گھسیٹ کر کمرے سے باہر لے جا نا چاہ رہے تھے۔ آخر سب کے زور نے اسے بے دم کر دیا اور وہ اسے کمپنی کے پولیس اسٹیشن لے چلے۔ وہاں وہ ساکت پڑا رہا۔ پھر انھوں نے اسے منتقل کرنے کے لیے پولیس کی گشتی ویگن بلوالی۔یورگس کے حواس بحال ہوئے تو وہ آرام سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی ایک وجہ تو تھکاوٹ تھی اور دوسری وجہ پولیس والوں کی موجودگی۔ وہ اسے گشتی ویگن میں ڈال کر لے چلے۔ سب پولیس والے اس سے دور دور بیٹھے تھے جس کی وجہ کھاد کی بدبو تھی۔ سارجنٹ کے سامنے پیش کیے جانے پر اس کا نام، پتا پوچھا گیا۔اس پر مار پیٹ اور دنگا فساد کا الزام عائد کیا گیا۔ حوالات لے جاتے ہوئے ایک پولیس والے نے اسے پہلے گالیاں دیں کیوں کہ وہ غلط برامدے کی طرف مڑ گیا تھا پھر آہستہ چلنے پر اسے ٹھُڈا مارا لیکن یورگس نے چوں نہیں کی۔ اسے پیکنگ ٹاؤن میں رہتے اڑھائی سال ہوچکے تھے اور وہ جانتا تھا کہ پولیس کسے کہتے ہیں۔ان سے پنگا لینے کے نتیجے میں آپ پل بھر میں بھرتا بن سکتے تھے۔ کسی ہنگامے کی صورت میں کھوپڑی ٹوٹنے کا امکان بھی موجود تھا۔ ایسی صورت میں یہ رپورٹ دی جاتی کہ قیدی نشے میں دھت ہوکر اوپر سے گرا تھا۔ اس بات کی سچائی جاننے میں کسی کو دل چسپی تھی اور نہ ضرورت۔
ایک بھاری دروازہ کھول کر اسے اندر دھکیل دیا گیا اور یورگس ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ وہ اکیلا تھا اور اسے یوں ہی یہ سہ پہر اور رات گزارنا تھی۔
وہ پیٹ بھرے درندے کی طرح مطمئن تھا۔ اس نے بدمعاش کو اچھا سبق سکھایا تھا، اگرچہ اتنا اچھا سبق تو نہیں جتنا 1 منٹ مزید ملنے پر وہ سکھاسکتا تھا لیکن اتنا بھی ٹھیک تھا۔ گلا دبانے کی شدت سے اب تک اس کی انگلیوں میں سنسناہٹ ہورہی تھی۔ لیکن بتدریج توانائی اور ہوش کی واپسی سے اسے اپنی حرکت کے نتائج کا احساس ہونے لگا۔ باس کی جان لینے کی کوشش کا اونا کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والاتھا۔ اس سے اس کا وہ دکھ بھی کم نہیں ہوگا جو اَب زندگی بھر بھوت بن کر اس کا پیچھا کرتا رہے گا۔اس سے اونا اور اس کے بچّے کو کھانا نہیں مل جائے گا بلکہ اس کی نوکری بھی چھن جائے گی جب کہ وہ خود۔۔۔ خدا ہی جانتا تھا کہ اب کیا ہوگا !
آدھی رات تک وہ چہل قدمی کرتے ہوئے اسی ڈراؤنے خواب سے الجھتا رہا۔ تھک کر اس نے زمین پر لیٹ کر سونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس کی سوچیں اسے سونے نہیں دیتی تھیں۔ اسے زندگی میں پہلی بار اندازہ ہوا کہ سوچیں کتنی ناقابل ِ برداشت ہوجاتی ہیں۔ اس کے ساتھ والے کمرے میں اپنی بیوی کو پیٹنے والا شرابی بند تھا اور اس سے اگلے میں کوئی جنونی جس نے شور مچا رکھا تھا۔ آدھی رات کو پولیس نے ان بے گھر آوارہ آدمیوں کے لیے حوالات کے دروازے کھول دئیے جو دروازے کے باہر بھیڑ لگائے کھڑے تھے۔ وہ سب ٹھنڈ سے کپکپا رہے تھے۔ انہیں کوٹھڑیوں کے باہر برامدے میں بھر دیا گیا۔ ان میں سے کچھ تو پتھر کے فرش پر لمبے ہوگئے اور خراٹے لینے لگے، باقی بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی ٹھٹھول، ماں بہن اور اوئے توئے کرنے لگے۔ ہوا میں ان کی سانسوں کا تعفّن بھر گیا تھا اس کے باوجود ان میں سے بعض کو یورگس کی بدبُو پر اعتراض تھا جو بے چارہ اپنی کوٹھڑی کے کونے میں پڑا جاگ رہا تھا۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔