پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے (4)

طاہر یوسف بخاری روزمرہ زندگی میں جس قدر بے تکلفی روا رکھتے، بہ باطن اُتنے ہی خود دار بھی تھے۔ اُن کے تدریس سے منسلک ہو جانے پر یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وائی ایم سی اے کا کمرہ تنگیء داماں کی شکایت کر سکے۔ چنانچہ چند ہی ہفتوں میں بخاری سمیت قیصرذوالفقار بھٹی، اقبال چوہدری، گل نواز لغاری اور کیمسٹری کے لیکچرر مگر بعد ازاں پیمرا کے ڈائریکٹر جنرل حاجی احمد ملک پر مشتمل گورنمنٹ کالج کا سارا گینگ آبکاری روڈ پر منتقل ہو گیا۔ اِس کم خرچ، بالا نشین عمارت کو، جسے یونیورسٹی اورینٹل کالج کا پچھواڑہ سمجھ لیں، آپ صرف فنی طور پر ہوٹل کہہ سکتے ہیں۔ چھوٹے بھائی دانش کی میڈیکل تعلیم پر بہتر توجہ کی خاطر دانش اور مَیں تو ایک مختصر وقفے کے بعد دوبارہ وائی ایم سی اے چلے آئے۔ البتہ بخاری صاحب کی شوقیہ گھنی داڑھی اور خالصہ دل والی میچنگ پگڑی سے لے کر رات گئے تک کیرم کی لا انتہا بازیوں تک غیر نصابی مجالس کا مرکز یہی انار کلی ہوٹل رہا، عین اُسی طرح جیسے غذائی سرگرمیوں کا نیوکلیس حاجی حمید والا چائنیز لنچ ہوم تھا۔
چائینیز میں ایک تو پیشگی زرِ ضمانت کے بغیر سب کو فِکسڈ پرائس پر ناشتے، لنچ اور ڈنر کی سہولت مِلی، دوسرے ادائیگی یومیہ بنیاد پر نہیں بلکہ اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو۔ کم و بیش گھر جیسا ماحول تھا۔ کھانے کے معینہ اوقات پر بھٹی، بخاری اور مَیں یکجا ہوتے تو ٹائم ٹیبل کی گنجائش کے مطابق اکثر و بیشتر دانش سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ یہاں آج کل کے ’چکن علاکیف‘ یا ’فِلے منیاں‘ جیسے انفرادی آرڈر نہ دیے جاتے۔ طے شدہ مینیو کی رُو سے گوشت کی کوئی ڈش یا آلو، مٹر، بھنڈی، کریلے ٹائپ گوشت سبزی کا حسبِ خواہش کوئی ایک سالن مِلتا۔ جب دیکھا کہ آج ضیا ڈار، سہیل مرزا، انتظار مہدی یا کوئی اور دوست بھی شریکِ طعام ہیں تو بازار کے نرخوں پر ایک پلیٹ شامی کباب یا دال ماش۔ چونکہ ہر کسی کے لیے سالن انفرادی ڈونگے میں آتا، اِس لیے معمولی اضافے سے رونق لگ جاتی اور کھانا بابرکت ہو جاتا۔
یوں کئی نازک مرحلوں پر بھٹی، بخاری اور شاہد ملک کی عوامی میزبانی ’محدود وسائل اور لامحدود مقاصد‘ والی اکنامکس کا جیتا جاگتا نمونہ بنی۔ شاید اِس کے پیچھے اُس خاص لوک دانائی کو دخل تھا جو بڑے شہر کے نظامِ اقدار سے شناسائی اور دیہی ’وسیوں‘ کے یکساں رچاؤ کے شعور سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی فہم و دانش طبقاتی اور پیشہ وارانہ بنیاد پر یہ اندازہ لگانے میں مدد دیتی کہ کتنی تعلیم کا حامل کِس مقدار میں کھانا کھائے گا، تین آدمیوں کے آرڈر سے کِن حالات میں پانچ یا فالتو سلاد، رائتہ کے ساتھ چھ افراد بھُگت سکتے ہیں، اور کونسی صورتحال میں یہ کہنا مناسب ہے کہ کھانا یہیں مگر چائے کالج چل کر؟ اِس ٹیکنکل اپروچ کے بل بوتے پر ہمیں مقامی احباب کے علاوہ واہ، راولپنڈی، شیخوپورہ اور سیالکوٹ جیسے مشہور مقامات سے آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت کا موقع کامیابی سے ملا۔ ایک مرتبہ تو طاہر بخاری کے بیرونِ ملک مقیم بڑے بھائی طیب بخاری اور ایک جرمن میم کی ایسی غذائی پذیرائی کی کہ وہ بھی جاتے جاتے آوٹ سٹینڈنگ کا تمغہ سجا گئیں۔
یہی ماحول تھا جب برٹش کونسل نے اطلاع دی کہ ایک برطانوی یونیورسٹی میں انگریزی تدریس کی یک سالہ تربیت کے لیے میری پروویژنل سیلکشن ہو گئی ہے۔ سچ کہوں تو ’سیلیکشن‘ سے زیادہ ’پروویژنل‘ کے لفظ نے مزہ دیا تھا۔ وجہ یہ کہ اِس سے اسلام آباد کے ایک سفارتخانہ میں اپنی اولین ملازمت کی یاد تازہ ہو گئی جہاں سے پہلے ’پروویژنل سیلیکشن‘ کا تہنیت نامہ موصول ہوا تھا اور پھر ٹیلی فون پر یہ اطلاع کہ ہم آپ کی علمی و لسانی استعداد کے پیشِ نظر پانچ اضافی انکریمنٹس بھی پیش کر رہے ہیں۔ کام کرتے پندرہ دن ہو گئے تو پتا چلا کہ انکریمنٹس اپنی جگہ، مگر میرے سوا ہر کسی کی تخواہ میں عمومی اضافہ ہو نے کو ہے۔ زبانی احتجاج پرجواب مِلا ”نوجوان، کیک دونوں طرف سے نہیں کھایا جاتا۔“
چونکہ رواں صدی کی ابتدا سے بیس برس پہلے غیرملکی پڑھائی لکھائی ایک نمایاں وصف شمار ہوتی، اِس لیے تربیتی اسکالرشپ کی پیشکش پر سب سے پہلے تو خواب و خیال کی دنیا میں کسی آئندہ نصابی کتاب میں درج ایک امکانی جملہ آنکھوں میں گھومنے لگا: ”اسلام آباد کے سفارتی دفتر میں سال بھر انٹرپریٹر کے فرائض اور راولپنڈی و لاہور میں چار برس تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد مولانا شاہد ملک اعلی تعلیم کے لیے انگلستان تشریف لے گئے۔“ خبر سُن کر سب سے دلچسپ تبصرہ پولیٹکل سائنس کے (اب مرحوم) استاد جاوید اکرام شیخ کا تھا۔ ”ہُن ایویں واپس ناں آ جائیں۔ اوہدوں آئیں جدوں مَیں تینوں خط لکھاں گا، جِیویں علامہ اقبال نے قائد اعظم نوں لکھیا سی کہ قوم کو آپ کی ضرورت ہے، اب واپس آ جائیں۔“ یہ برٹش کونسل کی چٹھی موصول ہونے سے اگلے روز کی بات ہے۔ عین اُس وقت تو میری فوری منزل بخاری و بھٹی کی نئی اقامت گاہ تھی۔ ”ہم انگلستان جا رہے ہیں۔۔۔ ہم انگلستان جا رہے ہیں۔“ ساتھ ویٹ لفٹروں کی طرح بازو اوپر نیچے، اور پس منظر میں بخاری کے قہقہے۔
میری اداکاری کے پیچھے گوجرانوالہ میں امی کے ماماں جی خواجہ صاحب کی وہ ڈرامہ بازی تھی جب1971ء میں ساٹھ سال سے کم عمر سابق فوجیوں کو دوران ِ جنگ ڈیوٹی پر آنے کا حکم دیا گیا۔ سردیوں کی سہ پہر واہ میں ہوائی حملے کا سائرن سُن کر ’اَیک اَیک‘ گن فائر کے تحفظ میں ہم سب سرکاری گھر کی پناہ گاہ میں چھپے بیٹھے تھے۔ باہر ایک تانگہ رُکا اور سامان کا ٹرنک نیچے اُترا: ’صوبیدار ہیڈ کلرک، غلام احمد لون۔‘ ساتھ بازؤں سے ویٹ لفٹروں جیسی حرکات و سکنات اور بیسیوں بار ایک ہی جملہ ”ہم جہاد پہ جا رہے ہیں، ہم جہاد پہ جا رہے ہیں۔“ پوچھنے پر کہا کہ ہمیں ری کال کر لیا گیا ہے، صبح نوشہرہ جا کر رجمنٹل سنٹر میں رپورٹ کرنی ہے۔“ ”تے ماماں جی، اوتھوں سِدھے محاذ تے ٹُر جاؤ گے؟“ خواجہ صاحب میرے لہجے کی تشویش کو بھانپ گئے۔ فرمایا ”بیوقوفا، کدی ہیڈ کلرکاں وی جنگ کیتی اے؟“ نوشہرہ میں ایک دن گزار کر اگلی صبح طبی معائنہ سے پہلے ہی اِس اقبالی بیان پر بخیر و عافیت واپس بھیج دیے گئے کہ ”ویسے تو ٹھیک ہوں، ذرا پائیلز کی شکایت ہے۔“
مجھے ایسی شکایت نہیں تھی، لہذا رخصتی کے مراحل آسانی سے گزر گئے۔ ہاں، ٹرمز آف ڈیپوٹیشن میں یہ سوال حل طلب رہا کہ بیرونی تعلیم کے دوران تنخواہ کا کیا ہوگا۔ وقتی مسئلہ تنخواہ کا حصول نہیں بلکہ یہ نکتہ تھا کہ پینڈو فیشن کے مطابق، مجھے الوداع کہنے کے لیے نصف درجن لواحقین ائر پورٹ تک پہنچیں گے کیسے؟ اِس کا انقلابی فیصلہ بھی طاہر یوسف بخاری نے کیا۔ یہی کہ بھائی زاہد راؤ پنڈی سے آئے ہیں، وہ دانش کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ جائیں۔ پروفیسر ضیا ڈار اور پاکستان ٹائمز والے ضیا الحق، جو بیڈن روڈ پر ’کیری ہوم‘ بھی چلاتے ہیں، ضیا کے پچاس سی سی ہونڈا پر سوار ہوں گے۔ ”لیکن یار بخاری، ہماری اپنی تکون؟“؟ ”ملک صاحب، عادت کے مطابق تو ائر پورٹ پیدل ہی جانا چاہیے، خیر سامان بھی ہے۔، سو، آپ، بھٹی اور مَیں ایک نمبر بس پکڑ لیں گے۔“ برطانیہ سے واپسی ہوئی تو طاہر یوسف بخاری محکمہء تعلیم کی ڈائیریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے تحت ساہیوال کے کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں انگلش کے لیکچرر متعین ہوچکے تھے۔“
(جاری ہے)