میاں چنوں میں افسوسناک واقعہ ، سینیٹر ساجد میر نے حکومتی رٹ ناکام قرار دیتے ہوئے دینی طبقے اور علماء کو بڑا پیغام دے دیا  

میاں چنوں میں افسوسناک واقعہ ، سینیٹر ساجد میر نے حکومتی رٹ ناکام قرار دیتے ...
میاں چنوں میں افسوسناک واقعہ ، سینیٹر ساجد میر نے حکومتی رٹ ناکام قرار دیتے ہوئے دینی طبقے اور علماء کو بڑا پیغام دے دیا  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے میاں چنوں کے علاقے میں ہجوم کے ہاتھوں قرآن مجید کے اوراق جلانے کے الزام میں تشدد کرکے ایک شخص کوقتل کرنے کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئےکہا ہے کہ  پنجاب میں مسلسل ایسے واقعات ہورہے ہیں جو انتہائی افسوس ناک ہیں، حکومت اپنی رٹ نافذ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

سینیٹر ساجد میر کاکہنا تھا کہ توہین مذہب کابےبنیاد الزام لگانا اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا خود توہین مذہب، توہین مذہب حساس معاملہ ہے،الزام لگانے والے کو ہی ثبوت دینا ہوتے ہیں، بلاجواز اپنے مقاصد کے لیے کسی پر بھی بے بنیاد الزام لگانا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے، جتنا کہ خود توہین مذہب، کیوں کہ اس طرح کا الزام لگاکر کسی بھی شخص کی جان خطرے میں ڈال دی جاتی ہے، اس سے معا شر ے میں انتشار پھیلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف توہین رسالت کے قانون ہی کی بات نہیں ہے بلکہ کسی بھی قانون سے متعلق کسی کے اوپر کسی بھی جرم کا الزام لگایا جائے، بغیر کسی ثبوت کے لگایا جائے یا جھوٹا الزام لگایا جائے تو یہ تو سخت گناہ ہے، پچھلے کئی برسوں میں توہین رسالت کے معاملے کو غلط بھی استعمال کیا جارہا ہے،یہ انتہائی غیر مناسب ہے،نبی کریم ﷺکا فرمان ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ بنا تحقیق کے باتوں کو آگے منتقل کردے،آگے پیش کردے،بحیثیت مسلمان ہمیں کسی بھی فرد کی بات کو آگے بیان نہیں کرنا چاہئے۔

پروفیسر ساجد میر نے مزید کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ آئین اورقانون کی رٹ برقرار رکھتے ہوئے، بے گناہوں پر الزام لگانے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرے اور سزا دے، تاکہ کوئی کسی بے گناہ شخص پر الزام لگاکر اس کی جان کو خطرے میں نہ ڈال سکے، توہین مذہب اور توہین رسالت سنگین جرم ہے، اگر کوئی اس کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائےاور اگر کوئی توہین مذہب اور توہین رسالت کا جھوٹا اور بغیر ثبوت الزام لگاتاہے کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔

انہوں نےکہاکہ اس سلسلےمیں دینی طبقے کی بھی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اشتعال انگیز اورفتویانہ گفتگو سےاجتناب کریں،علماء کو اپنی تقریروں میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے،انفرادی طور پر کسی بھی شہری کو اس بات کی  شریعت کے ہاں اجازت نہیں ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے ، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سزا دے۔