محمد علی جناح واقعی ’قائد اعظم‘ کہلانے کے مستحق تھے

محمد علی جناح واقعی ’قائد اعظم‘ کہلانے کے مستحق تھے
محمد علی جناح واقعی ’قائد اعظم‘ کہلانے کے مستحق تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محمد علی جناح واقعی ’’قائداعطم‘‘ کہلانے کے مستحق تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی زندگی کے آخری 10 سال ان کی قیادت اور تدبر کا امتحان تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں وہ بلاشبہ سرخرو ہوئے ۔۔۔۔ 

محمد علی جناح کا مسلمانان ہند کے لیے الگ وطن کا مطالبہ اچانک اور حادثاتی طور پر سامنے سامنے نہیں آیا ۔۔۔ یہ 1905 کی تقسیم بنگال سے 1928 کی نہرو رپورٹ تک کے تدریجی حالات و واقعات کا منطقی تقاضا تھا ۔۔۔۔ (جس کا ذکر سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سبنگھ نے اپنی کتاب Jinnah: India-Partition-Independence, میں بھی کیا ہے)
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ محمد علی جناح 1929۔۔۔۔1930 تک مسلمانون کے لیے الگ وطن کے قائل نہ تھے ۔ وہ کانگرس کے ساتھ مل کر جدو جہد پر یقین رکھتے تھے ۔ لیکن نہرو رپورٹ (1928) اور خصوصاً پہلی گول میز کانفرنسوں منعقدہ لندن(1932۔۔۔1930) میں گاندھی کے رویے نے محمد علی جناح کو سخت مایوس کیا اور انھون نے کانگرس سے الگ ہوکر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے حقوق کی جدو جہد کا آغاز کیا ۔۔۔۔۔۔
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد یقینا جانتے ہیں کہ محمد علی جناح 1913 میں مولانا جوہر کے اصرار پر مسلم لیگ کے رکن بنے ۔ اس سے پہلے وہ کانگرس کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف عمل تھے ۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب (مسلمان امیدواروں کا انتخاب مسلمان ووٹر ہی کریں گے ) کی داعی تھی جب کہ کانگرس اس کی سخت مخالف ۔ اسی وجہ سے ان دو جماعتوں کے درمیان اتحاد ناممکنات میں سے تھا ۔ محمد علی جناح نے 1916 کے معاہدہ لکھنو یہ ناممکن کام ممکن کر دکھایا ۔۔۔ اسی وجہ سے مسز سروجنی نائیڈو نے انھیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا ۔ معاہعدہ لکھنو میں کانگرس نے مسلم لیگ کے جداگانہ انتخاب کے مطالبے کو مان لیا ۔
تحریک خلافت کے دوران گاندھی جی کے سیاسی افق پر نمودار ہونے سے کانگرس کے رویے میں تبدیلی آگئی ۔ اس نے معاہدہ لکھنو کو پس پشت ڈال کر مسلم لیگ کے جداگانہ انتخاب کے مطالبے کو رد کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کے لیے یہ ایک دھچکا تھا ۔ لیکن قائداعظم پھر بھی کانگرس ۔۔لیگ اتحاد کے لیے کوشاں رہے ۔
انھوں نے کانگرس کے مخلوط انتخاب کے مطالبے کو بھی مان لیا ۔ بشرطیکہ کانگرس مسلمان کے حقوق کے تحفظ کی کم سے کم ضمانت (1927 تجاویز دہلی میں یہ مطالبات بیان کیے گئے ۔ )دے ۔ قائداعظم کے جداگانہ انتخاب کے مطالبے کے دستبردار ہونے کی اس فیاضانہ پیش کش سے مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ گئی ۔ شفیع لیگ اور جناح لیگ۔
جناح کی تجاویز دہلی کو شروع میں کانگرس نے سراہا ۔۔۔۔۔۔ لیکن 1928 کی نہرو رپورٹ میں اس کو رد کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔بعد ازاں گول میز کانفرنسوں (1930۔۔1932) میں گاندھی جی نے اقلیتوں کو کسی قسم کا تحفظ دینے سے انکار کر دیا ۔ جس پر قائداعظم نے سمجھ لیا کہ کانگرس سے توقعات وابستہ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ چنانچہ انھوں نے کانگرس سے اپنا راستہ ہمیشہ کے لیے جدا کر لیا۔
کانگرس کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا لیکن اگلی دو دہائیوں میں کانگرس کی چانکیائی سیاست کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانان ہند کو الگ وطن کا تحفہ دیا ۔

مزید :

بلاگ -