جب مسلمانوں نے ووٹ کی طاقت استعمال کی
23مارچ 1940 ء سے پہلے مسلم لیگ کی سیاست آئینی اصطلاحات اور دستوری تحفظ کے گرد گھومتی تھی۔ آئینی جدوجہد کی اہمیت اپنی جگہ پر لیکن یہ آئینی پیچیدگیاں عام فرد کے فہم سے بالا تھیں۔ 23 مارچ 1940ء کوپہلی بار مسلم لیگ نے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کو اپنا نصب العین قرار دیا تو یہ مسلم عوام کے سطحأ فہم کے عین مطابق بات تھی ۔ مسلمان برصغیر میں ایک ہزار سالہ مسلم حکومت کے وارث تھے۔وہ اس وقت محکوم تھے اور اقلیت میں بھی تھے۔ انھیں علم تھا کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہمیشہ اکثریت کی حکومت ہوگی۔1937ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی کانگرسی وزارتوں کا تلخ تجربہ ان کے سامنے تھا۔ انھیں لگتا تھا کہ اس جمہوری نظام میں وہ محکومی کا جوا اپنے کندھوں سے کبھی اتار نہ سکیں گے۔ ان حالات میں الگ وطن کے تصور میں انھیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت کے آثار نظر آنے لگے۔ گویا یہ ان کے دل کی آواز تھی جسے مسلم لیگ نے نصب العین کی شکل دے دی تھی۔
اس نصب العین کی وجہ سے مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک قومی تحریک بن گئی۔ مسلمان علاقائی جماعتیں چھوڑ کر مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہوگئے۔ اس نصب العین نے انھیں ایک تنظیم کی لڑی میں پرودیا اور ان میں بلا کی قوت پیدا کردی۔ یہی نصب العین اگلے چند سالوں میں ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ ، ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘کے نعروں کی صورت میں گلی کوچوں میں گوجنے لگا۔مسلمان اس نصب العین کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔
1940ء میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اوراگلے سال یعنی 1941ء میں مسلم لیگ نے 23مارچ کے نصب العین کواپنے دستور کا باقاعدہ حصہ بنا لیا۔علی گڑھ یونی ورسٹی اور دیگر کالجوں کے طلبہ علیحدہ وطن کا پیغام لے کر دُور دراز دیہاتوں تک جا پہنچے۔مسلم لیگ کی شاخیں ضلعے اور شہر کی سطح تک قائم ہوگئیں۔
پانچ سال بعد(1945-46 ء میں) انتخابات ہوئے تو 23مارچ کا یہی نصب العین مسلم لیگ کا انتخابی منشور قرار پایا۔ مسلمانوں کو اپنے اس نصب العین کی حقانیت پر اس قدر یقین تھا کہ ان انتخابات کو مسلم لیگ نے علیحدہ وطن ___پاکستان___ کے لیے ریفرنڈم قرار دیا۔ پوری قوم میدان عمل میں اُتر آئی۔
پہلے مرحلے میں مرکزی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ۔مسلم لیگ نے تیس کی تیس مسلم نشستیں جیت لیں۔اپنے اتحاد کو یوں ثمر آور دیکھ کر مسلمان نہال ہوگئے۔ انھوں نے جلسے جلوس منعقد کیے ۔مسلم لیگ نے 11جنوری کو یوم فتح منایا۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا مرحلہ ابھی باقی تھا۔
یوم فتح کے سلسلے میں دہلی میں ایک شان دار جلسہ ہوا۔اس موقع پر مسلم دستکاروں نے قائداعظم کی خدمت میں ہاتھ سے بنے ہوئے بہت سے تحائف پیش کیے ۔ ان میں سے ایک چھوٹی سی توپ اور اس کے کارتوس بھی تھے۔ لوگ بہت پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ ان نعروں میں پاکستان کے لیے جان قربان کرنے اورسر دینے کی باتیں تھیں۔اس موقع پر قائداعظم نے بھی تقریر کرنی تھی۔ قائداعظم ہمیشہ انگریزی زبان میں تقریر کرتے تھے۔ وہ اپنی اردو کو ’’تانگے والے ‘‘کی اردو کہا کرتے تھے۔ اس دن قائداعظم نے اردو میں تقریر کی۔ آپ نے فرمایا:
’’بھائیاں
آپ نے لکھأو کی اردو سنی ۔آپ نے دہلی کی اردو سنی ۔اب آپ بمبئی کی اردو سنیں۔ آج آپ نے مجھے کئی کھلونا چیزیں دی ہیں۔ اس کے بھی کچھ معنی ہیں۔
ہٹلر نے اپنے ریفرنڈم میں سوفی صدی رائیں حاصل کی تھیں۔ اس کے پاس فوجیں تھیں، ائیر فورس تھی، نیوی تھی، توپ خانے تھے، گستاپو(خفیہ جابر پولیس) تھی۔ آپ نے مرکزی اسمبلی کی سو فی صدی سیٹوں پر قبضہ کیا ہے۔ مسلمانوں کی تیس سیٹیں تھیں یہ سب مسلم لیگ نے لے لیں۔ ہمارے پاس نہ فوج ہے ، نہ ائیر فورس ہے ، نہ نیوی ہے، نہ پولیس ہے، نہ خزانہ ہے۔ مسلم لیگ کو یہ فتح آپ کی مدد سے حاصل ہوئی ہے۔ میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔
آپ کہتے ہیں کہ آپ پاکستان کے لیے جان دیے دیں گے اور آپ پاکستان کے لیے سر دے دیں گے۔ بے شک آپ یہ سب کریں گے۔ مگر میں آپ سے نہ جان مانگتا ہوں اور نہ سر مانگتا ہوں۔ صوبے کے الیکشن دہلی میں نہیں ہوں گے اور سب جگہ ہوں گے۔ میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ آپ اپنے ووٹ مسلم لیگ کو دے دو پھر انشااللّٰہ ہم سب سنبھال لیں گے۔ ‘‘
بقول سید حسن ریاض: ’قائداعظم نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ایسے اعتماد سے کہا ’’انشااللّٰہ ہم سب سنبھال لیں گے‘‘ کہ پورے مجمع کے دلوں میں یہ اعتماد منتقل ہوگیا۔ لوگوں نے بڑے جوش سے نعرے بلند کیے۔ ‘
جناح واقعی قوم کے عٖظیم قائد تھے۔ قوم کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کسی شبے سے بالا تھی۔ ان کی اردو ، اردو معلٰی نہ سہی ،ان کا اخلاص کوثر و تسنیم میں دھلا ہوا ضرور تھا۔ اس اخلاص کی بدولت انھوں نے اپنا اعتماد ایک ایک فرد کے سینے میں منتقل کردیا تھا۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ نتائج نکلے تو مسلم لیگ صوبائی اسمبلی کی 492 میں سے 428 نشستیں جیت چکی تھی۔ کہاں 1937ء کی 108نشستیں اور کہاں موجودہ 428 نشستیں۔ان انتخابات کے بطن سے پاکستان کا ظہور ہوا۔
صرف ایک سال بعد __ 1947 ء میں__ مسلمان اپنا نصب العین پانے میں کامیاب ہوگئے۔وہ خواب جو انھوں نے 23مارچ 1940ء کو دیکھا تھا اس کی تعبیر انھیں 14اگست 1947ء کو مل گئی ۔
مسلمانوں کا 23مارچ سے 14اگست تک کاسفر ایک معجزہ ہے۔ اس معجزے کا راز فقط ’’عزم صمیم‘‘ ہے۔امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین (Harry S Truman) نے اپنے ملک کے بارے میں کہا تھا لیکن یہ بات پاکستان کے بارے میں بھی اتنی ہی سچی ہے: پاکستان کا قیام کسی خوف کا نتیجہ نہیں۔ یہ دراصل ایک قوم کے خوابوں کی تعبیر، اس کی جرات رندانہ کاحاصل اوراس کے عزم صمیم کا ثمر ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔