تاریخ کیسے مسخ ہوتی ہے؟

تاریخ کیسے مسخ ہوتی ہے؟
تاریخ کیسے مسخ ہوتی ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے یہاں اکثر یہ ایشو اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستان میں قومی نصاب یک رخے انداز میں ترتیب دیا گیا ہے ۔ اور ایسا کرتے ہوئے تاریخ مسخ کی گئی ہے ۔ عام طور پر ایک خاص حلقہ اس بات کو اٹھاتا ہے۔اس حلقے کے مطابق سکول میں پڑھائی جانے والی تاریخ کو تاریخ کے طور پر ہی پڑھایا جانا چاہیے ان کے خیال میں تاریخ وہ ہے جس میں تاریخ کے ہر اہم کردار کا تذکرہ ہو،خواہ یہ کردار مخالف ہو یا موافق ۔وہ اس بات کو بھی ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تاریخ کا کچھ Perspective بھی ہوسکتا ہے ۔ اس Perspective کو وہ تعصب کا نام دیتے ہیں ۔اور اسے تاریخ کو مسخ کرنا قرار دیتے ہیں ۔
راقم کا تعلق ایک عرصے سے نصاب سازی اوردرسی کتب کی تصنیف و تالیف سے ہے ۔ کئی ایک ممالک کے نصابی خاکے پڑھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے ۔دنیا بھر میں اس کا چلن ہے کہ ہر ملک میں تاریخ کو اپنے ملک کی تعلیمی پالیسی سے ہم آہنگ کرکے ہی پڑھاجاتا ہے ۔ کہیں بھی غیر جانب داری کے نام پر سب کچھ پڑھائے جانے کی روایت نہیں ملتی ۔ نمونے اور مثال کے طور پر انڈیا میں پڑھائی جانے والی تاریخ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ یہ جائزہ دو لحاظ سے دلچسپی کا باعث ہوگا ۔ ایک تو یہ کہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں تاریخ کے ملتے جلتے موضوعات پڑھائے جارہے ہیں ۔ پاکستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ سے تو ہم واقف ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے بھارت میں ان موضوعات کا متن کس Perspective میں بیان کیا جاتا ہے ۔دوسرا یہ کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے ۔ ہم یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ طلبہ کو تاریخ پڑھاتے وقت کس طرح کی ’غیر جانب داری‘ اختیار کی جاتی ہے ۔ آیئے بھارت کی اہم ریاست تامل ناڈو میں سوشل سائنس (معاشرتی علوم) کے مضمون میں پڑھائی جانے والی تاریخ کا جائزہ لیں۔
تقسیمِ بنگال
تامل ناڈو کی سوشل سائنس جماعت پنجم کی کتاب میں ایک سبق ہے ''The Freedom Struggle" ۔ اس سبق میں تقسیم بنگال کے حوالے سے درج ذیل متن موجود ہے :
’’انگریز اس بات سے پریشان تھے کہ ہندوستانیوں میں جذبہ ء حب الوطنی بڑھتا جارہا ہے ۔ اس جذبے کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے بنگال کو مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم کردیا۔ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جب مغربی بنگال میں ہندوؤں کی ۔ اس تقسیم کے ذریعے انھوں نے ہندومسلم اتحاد کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ بنگال کی تقسیم نے لوگوں میں شدید اشتعال پیدا کردیا۔ انھوں نیبرطانوی مصنوعات ترک کرکے مقامی اشیا استعمال کرنا شروع کردیں اور برطانوی مصنوعات کو پبلک مقامات پر آگ لگا نا شروع کردی۔ ‘‘ (صفحہ نمبر 171)
تقسیمِ بنگال کی اصل حقیقت کیا تھی ؟ اس کو کیوں تقسیم کیا گیا تھا اور کیا واقعی اس نے تمام لوگوں (بشمول ہندو مسلم) میں اشتعال پیدا کردیا تھا؟ ان سوالات کے تحقیق پر مبنی جوابات یقیناً سوشل سائنس کی کتاب میں بیان کیے گئے متن کی نفی کرتے ہیں ۔لیکن بھارت میں اس کے علاوہ پڑھایا بھی کیاجا سکتا ہے ۔ یقیناً یہ نہیں پڑھایا جاسکتا کہ ایک لاکھ نواسی ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل بنگال کا انتظام چلانا ایک گورنر کے لیے مشکل تھا۔ اور یہ کہ گورنر اپنے پانچ سالہ دور میں ڈھاکا اور چاٹگام جیسے اہم مگر دور درازمقامات کا بمشکل ایک بار دورہ کرسکتا تھا۔ اس لیے بنگال کو تقسیم کرنا انگریزوں کی انتظامی مجبوری تھی ۔ یہ بھی نہیں پڑھایا جاسکتا کہ اس تقسیم کے نتیجے میں مشرقی بنگال کے پسِ ماندہ مسلمانوں کے لیے سیاسی اور معاشی میدان میں ترقی کے مواقع پیدا ہوگئے تھے اور ہندوؤں کی ان پر بالادستی ختم ہوگئی تھی اس لیے مسلمانوں نے اس تقسیم کا پرجوش خیر مقدم کیا تھا اور جشن منایا تھا۔ اور یہ صرف ہندو ہی تھے جنھوں نے اس تقسیم کی مخالفت کی تھی اور اس انتظامی اور سیاسی مسئلے کو مذہبی مسئلے میں تبدیل کردیا تھا۔ طلبہ کو یہ بھی نہیں بتایا جاسکتا ہے کہِ تقسیمِ بنگال کے خلاف ہندوؤں کی یہی تحریک تھی جس نے مسلمانوں کو کانگرس سے بدظن کردیا تھا اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہوگئے تھے۔ اسی کے نتیجے میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ پڑھانا بھارت میں ممکن نہیں ۔ وہ تاریخ کو اپنے تناظر ہی میں پڑھائیں گے اور وہ اسی تناظر میں پڑھا رہے ہیں ۔
تحریکِ آزادی کے ادوار
کلاس دہم کی سوشل سائنس کی درسی کتاب میں تحریکِ آزادی ہند کو Pre-Gandhian Era (1885 -1919) اور Gandhian Era (1920-1947) کے دو ادوار سے موسوم کرکے ان کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ادوار کوکسی اہم شخصیت سے وابستہ کرکے تاریخ پڑھانا تاریخ کو Prospective میں پڑھانے کی بہترین مثال ہے ۔ظاہر ہے کہ بھارت میں گاندھی ہی تحریکِ آزادی کا دارالمہام ہیں۔ اس لیے وہاں تاریخ کا مطالعہ گاندھی جی کے تناظر ہی میں کیا جائے گا۔ پاکستان میں تاریخ پڑھاتے وقت سرسید احمد خان، مسلم لیگ کا قیام یا قائداعظم ہی سنگِ میل ہیں ۔اس لیے یہاں انھی کے تناظر میں تحریکِ پاکستان کا مطالعہ کیا جائے گا ۔
تحریکِ آزادی کی عظیم شخصیات
کلاس دہم کی سوشل سائنس کی کتاب کے صفحہ نمبر 67 پر The Great Indian Leaders کے عنوان کے تحت مندرجہ ذیل متن لکھا گیا ہے :
’’عظیم دانش وروں ، شاعروں اور قائدین نے قوم کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مصلحین جیسے راجا راموہن رائے، سوامی ویوکاناندا (Swami Vivekananda) اور قائدین جیسے تلک، نہرو، گاندھی اور پٹیل نے اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے لوگوں میں خودی اور خود اعتمادی پیدا کی۔ یہ بیرونی تسلط کے سخت خلاف تھے۔ ‘‘ یہ تو دہم جماعت کی کتاب ہے اس سے پہلے پانچویں جماعت کی سوشل سائنس کی کتاب کے صفحہ نمبر 169 پر Leadership and Inspiration کے عنوان کے تحت جن قائدین کا تذکرہ کیا گیا ان میں قومی سطح کے قائدین میں موہن داس کرم چند گاندھی اور جواہر لال نہرو کے نام شامل ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کی درسی کتب میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسے کسی کانگرسی مسلمان لیڈر کا ذکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ یہ حالت ہے ایک سیکولر ریاست کی ۔ جو پاکستانی سیکولر اور لبرل خواتین و حضرات تحریکِ پاکستان کے ضمن میں محمد علی جناح، اقبال وغیرہ کے ساتھ دیگر اہم ہندو لیڈروں ____قطع نظر اس کے کہ ان کا تحریکِ پاکستان سے کوئی تعلق ہو_____ کے تذکرے کی بات کرتے ہیں وہ یقیناً زمینی حقائق سے بے خبر خواب و خیال کی دنیا میں رہتے ہیں۔ انڈیا کے برعکس ہمارے یہاں درسی کتابوں میں ان غیر مسلموں کے تذکرے میں فیاضی کا مظاہرہ کیا گیاہے جنھوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ جماعت ہشتم کی تاریخ کی درسی کتاب میں تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے والے غیر مسلموں میں جمشید مہتا ، جوگندر ناتھ منڈل، سروکٹر ٹرنر اور ایس پی سنگھا کے نام شامل ہیں ۔ ان میں سے ایس پی سنگھا کی تصویر تو قائداعظم کی تصویر کے ساتھ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کلاس ہشتم کی کتاب کے ٹائٹل پر موجود ہے ۔
ہندوستانی پریس اور لٹریچر کا تحریکِ آزادی میں کردار
تامل ناڈو کی سوشل سائنس کی جماعت دہم کی کتاب کے صفحے نمبر67 پر Indian Press and Literature Theکے عنوان کے تحت قومی بیداری میں حصہ لینے والے اخبارات میں انڈین مرر، بمبے سماچار، دی امرت بازار پتریکا ، دی ہندو، دی کیساری اور مراٹھا ایکوڈ کا تذکرہ تو ہے لیکن اگر نہیں ہے تو زمیندار، ہمدرد، کامریڈ، الہلال اور اردوئے معلی کا نہیں ہے ۔جو اپنے زمانے کے مقبول ترین مسلم نمائندگی کے حامل رسائل اور اخبارات تھے جنھوں نے انگریزوں کو للکارا اور جنھیں انگریزوں کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا تھا ۔ اس طرح لکھاریوں میں بنکم چندر ا چٹرجی، رابندر ناتھ ٹیگور اور سبرامانی بھراٹی کا ذکر تو ہے لیکن ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی ، ظفر علی خان اور اقبال جیسے قد آور لکھاریوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ حسرت موہانی تو پریس لا کے تحت جیل جانے والے شایدپہلے لکھاری تھے جن کا جیل میں قید کے دوران کہا گیا یہ شعر ضرب المثل بن چکا ہے :
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
مسلم لیگ اور کانگرس کا قیام
تامل ناڈو کی سوشل سائنس کی جماعت دہم کی کتاب کے صفحہ نمبر 69 پر Formation of Muslim League کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے کہ’’ برطانیہ نے Divide and Rule کی پالیسی اپنا تے ہوئے مسلمانوں کے مطالبات کو تسلیم کیا۔‘‘ آگے چل کر مسلم لیگ کے مقاصد میں ’’برطانوی حکومت کا وفادار رہنا‘‘ لکھا گیاہے ۔ جب کہ اس سے پہلے صفحہ نمبر 68 پر کانگرس کے مقاصد میں تعلیم، سیاسی اصلاحات اور ہندوستانیوں کے حقوق کے تحفظ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ کانگرس کے قیام کے ضمن میں اس بات کا ذکر کرنا انڈیا میں مناسب نہیں ہے کہ کانگرس برطانوی حکومت کی منظوری ، رضامندی اور منشا کے تحت ہی وجود میں آئی تھی۔
معاہدہ لکھنو کیسے ختم ہوا؟
تامل ناڈو کی سوشل سائنس کی جماعت دہم کی کتاب کیصفحہ نمبر 70 پر معاہدہ معاہدہ لکھنو کا ذکر ہے جس میں کانگرس کی طرف سے مسلمانوں کے لیے مخصوص نشستوں اور جداگانہ انتخابات کے مطالبے کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی ہے ۔ لیکن آگے 1947 تک بیان کیے گئے واقعات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کانگرس اس معاہدے سے کیسے پھر گئی تھی اور اس نے1927 کی نہرو رپورٹ میں اس معاہدے کو پسِ پشت ڈال کر مسلمانوں کے جداگانہ انتخابات کے مطالبے کو کیوں مسترد کردیا تھا۔
کابینہ مشن پلان کا ادھورا تذکرہ
تامل ناڈو کی سوشل سائنس کی جماعت دہم کی کتاب کیصفحہ نمبر 80 پر کابینہ مشن پلان کے عنوان سے کابینہ مشن سے متعلق ادھوری معلومات دی گئی ہیں ۔ اس میں وفاقی حکومت کے قیام، آئینی اسمبلی کے انتخاب اور عبوری حکومت کے قیام کے متعلق تو بتایا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کابینہ مشن پلان کانگرس کے پاس ہندوستان کو متحد رکھنے کا آخری موقع تھا ۔ اس پلان کے مطابق ہندوستان کی تقسیم کو نظرانداز کرکے متحدہ ہندوستان کا نقشہ پیش کیا گیا تھا۔ اس مشن پلان کو مسلم لیگ نے تو قبول کرلیا تھا لیکن کانگرس نے اس کو رد کردیا تھا ۔ اسی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سوا کوئی راستہ نہ بچا تھا۔
دیگر تحاریک کا ذکر
تامل ناڈو کی سوشل سائنس کی جماعت دہم کی کتاب میں دیگر تحاریک جیسے ریشمی رومال، دیوبند اور علی گڑھ کاذکر نہیں ہے۔ ظاہر ہے انڈیا میں ان کا ذکر ہوبھی نہیں سکتا ۔ ان کا ذکر پاکستان کیتمام صوبوں کی درسی کتب میں موجود ہے ۔
وادی سندھ کی تہذیب
یہ تو تحریکِ آزادی ہند تھی جس کا ذکر انڈیا میں اپنے Perspective ہی میں ہوتا ہے ۔ اب آئیے ذرا وادی ء سندھ کی تہذیب کی تاریخ کی طرف ۔
انڈیا کی جماعت ششم کی تاریخ کی کتاب کے تیسرے سبق کا عنوان ہے ’’اولین شہروں ‘‘ ۔ اس میں ہڑپا کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ شہروں کی خصوصیات ، مکانات ، نالوں، سڑکوں ، شہری زندگی وغیرہ کے تذکرے کے بعد ’’ ہڑپا تہذیب کے زوال کا راز‘‘ کے عنوان کے تحت صفحہ 39 پر اس تہذیب کی زوال کی وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔ ان وجوہات میں جنگلوں کا صفایا، چراگاہوں کا خاتمہ اور سیلاب جیسی وجوہات کا تذکرہ تو کیا گیا ہے۔ لیکن سب سے اہم اور معروف نظریے ’’آریاؤں کے حملے‘‘ کا ذکر حاشیے میں بھی نہیں کیا گیا کہ کس طرح آریاؤں نے وادئ سندھ کے لوگوں پر غلبہ پاکر انھیں قتل کر دیا، غلام بنالیا یا جنوب کی طرف دھکیل دیا۔ظاہر ہے کہ وادی ء سندھ کی تہذیب کے زوال کے اسباب میں آریائی حملوں کا تذکرہ اس لیے نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس وقت ہندوستان پر حکومت کرنے والے اور تاریخ لکھنے والے آریاؤں کے وارث اوران کی تہذیب کے نمائندے ہیں ۔
حاصلِ مطالعہ
زیرِ مطالعہ مضمون میں ہم نے دیکھا کہ ایک’ سیکولر ملک‘ میں کس طرح تاریخ کو اپنے نقطہ ء نظر سے پڑھایاجاتا ہے ۔یہ بات بہرحال طے شدہ ہے کہ دنیا کا ہرملک تاریخ کو اپنے قومی تناظر ہی میں پڑھاتا ہے نصاب تشکیل دیتے وقت قومی تعلیمی پالیسی کو مدنظر رکھا جاتا ہے ۔ یہی پالیسی نصاب کے Visions اور Goalsمتعین کرتی ہے ۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے حاصلاتِ تعلم(Students Learning Outcomes) کا تعین کیا جاتا ہے ۔ جو اصول اور کامن پریکٹس دنیا بھر میں چل رہی ہے ۔ظاہر ہے اس کا اطلاق پاکستان پر بھی ہوگا ۔ پاکستان میں جب طلبہ کو تحریکِ آزادی پڑھائی جائے گی تو انھیں بتایا جائے گا کہ وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو قیامِ پاکستان پر مجبور کیا ۔ وہ کون سے افراد تھے جنھوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ وہ کون کون سے واقعات تھے جو قیامِ پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ۔ مسلمانوں کو اقلیت کے طور پر ہندوؤں کی کن ہتھکنڈوں سے نبٹنا پڑا۔ دو قومی نظریہ کیا تھا جس نے مسلمانوں کے الگ وطن کی بنیاد فراہم کی ۔ ظاہر ہے کہ یہ ہماری تاریخ کا Perspective ہے اور اسے آپ تعصب اور تاریخ کو مسخ کرنا نہیں کہہ سکتے ۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -