کلثوم بنام باؤ جی - جواب آں غزل

      کلثوم بنام باؤ جی - جواب آں غزل
      کلثوم بنام باؤ جی - جواب آں غزل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  السلام علیکم میرے پیارے باؤ جی!

ویسے ہم ایک دوسرے کو بھولے ہی کب ہیں کہ بذریعہ خط ایک دوسرے کو یاد دلانے کی نوبت آتی یا ایسی کون سی بات ہے جو میں نے آپ سے کہی ہو اور آپ نے مانی نہ ہو یا اسے بھلا دیا ہو لیکن اس کے باوجود یہ خط لکھنا انتہائی ضروری تھا کیونکہ آج کل خطوں کی بھرمار ہے اور ممکن ہے کہ لوگ میرے نام سے فرضی خط لکھ کر آپ کو جذباتی طور پر یرغمال بنانے کی کوشش کریں۔ لہذا کچھ باتیں اس خط کے ذریعے سے کرنا ضروری تھیں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔

میرے پیارے باؤ جی! جب سے آپ پاکستان واپس آئے ہیں، کچھ لوگ آپ کو سمجھانے لگے ہیں کہ لاڈلے خان کو معاف کر دو۔ وہ یوں غزل سرا ہیں گویا سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہے یا سب کچھ آپ ہی کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتیں سننے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ آپ ایک مشرقی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اسلام پسند ہیں لہذا یہ لوگ عاجزی کا حوالہ بھی دیں گے اور اس بات کا درس بھی دیں گے کہ اسلام میں عفو و درگزر کا بہت بڑا مقام ہے لہذا لاڈلے کو معاف کر دیا جائے۔ ان کی یہ بات بجا ہے لیکن آپ کو ان کی ادھوری معلومات میں اضافہ کرنا ہے۔ آپ نے انھیں بتانا ہے کہ اسلام واقعی عاجزی اور عفو ودرگزر کا درس دیتا ہے لیکن یہ آدھی بات ہے۔  پوری بات یہ ہے کہ اسلام عاجزی کا درس دیتا ہے لیکن مناسب جگہ لیکن اگر آپ کی عاجزی کی وجہ سے کسی کے تکبر میں اضافہ ہو رہا ہو اور وہ آپ کی عاجزی کو آپ کی کمزوری یا آپ کی بزدلی سمجھ رہا ہو تو وہاں عاجزی کرنا منع ہے بلکہ کسی حد تک ظلم بھی ہے کہ آپ کی عاجزی کی وجہ سے کسی ظالم کے ظلم کو مہمیز ملی ہے۔ آپ نے انھیں بتانا ہے کہ حج کے موقع پر نبی کریم اور اصحاب کی ظاہری کمزوری جب کفار کو ہلاشیری دینے لگی تو نبی کریمؐ اور صحابہؓ نے طواف کت پہلے تین پھیرے اکڑ اکڑ کر اور خوب تیزی سے لگائے حالانکہ زمین پر عاجزی سے چلنے کا حکم ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ کفار اور مشرک کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اور جب ان کی غلط فہمی دور ہو گئی تو باقی کے تین پھیروں میں رمل نہ کیا گیا۔ اسی طرح آپ نے انھیں باور کرانا ہے کہ معاف کرنے کا بھی یہی طریقہ ہے کہ اگر اگلا آپ کے رحم دلانہ رویے اور عفو و درگزر والے معاملے کو جانے اور اس کی قدر کرے تو یہ سونے پر سہاگا ہے لیکن اگر اگلا آپ کے رحم کو آپ کی مجبوری سمجھے اور آپ کے عفو و درگزر کو آپ کی بزدلی سمجھے تو وہاں معاف کرنا ظلم ہے۔ 

میرے نواز میرے باؤ! آپ نے انھیں بتانا ہے کہ میں نے اپنے قریبی ساتھی مولانا فضل الرحمن کی پیشکش کے باوجود خیبر میں اسے حکومت بنانے کا موقع دیا لیکن اس نے بدلے میں پنجاب سے ہمارا حق چھینا۔میں نے اسے نہ صرف پلاٹ دیے بلکہ اربو ں کے حساب سے چندا دیااور جب یہ لاہور میں لفٹ سے گرا تو میں نے راولپنڈی جیسا اہم جلسہ منسوخ کر دیا لیکن اس نے کیا کیا؟ آپ نے ان صحافیوں سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ لاڈلے خان نے جیل میں آپ کے ساتھ کیا کیا؟ یہ آپ کے خلاف سازشوں کا سرغنہ کیوں بنا رہا،اس نے میری بیٹی کے واشروم میں کیمرے کیوں لگوائے؟ میں ہسپتال کے جس کمرے میں داخل تھی اس کے سامنے ہر وقت کیوں تماشا لگائے رکھا؟ جب میری میت بلکہ آپ کی والدہ کی میت پاکستان بھجوائی جانے لگی تو اس وقت اس کی شہ پر کیا کہا جاتا رہا؟ میرے اور آپ کے بچوں کے ساتھ کیا رویہ برتا گیا؟آپ کے مخلص لوگوں کو قید کر کے ان پر ہوتے ظلم کی لائیو ویڈیو دیکھنے کی خواہش کیونکر کی جا سکتی ہے؟ عفو و درگزر کا درس دینے والے ان لوگوں کو جب یہ یاد آ جائے تو انھیں کہنا کہ ہاں یہ میرے ذاتی معاملات ہیں اور میں ہمیشہ کی طرح لاڈلے خان کو معاف کرنے کے لیے تیار ہوں حالانکہ مجھے یقین ہے کہ اسے دوبارہ موقع ملا تو وہ میرے ساتھ وہی کچھ کرے گا جو اس نے پچھلے چار سالوں میں کیا لیکن میں پھر بھی اسے معاف کر دیتاہوں اور یہی میرے اختیار میں بھی ہے لیکن اس لاڈلے کے قومی جرائم میں کیسے معاف کر سکتا ہوں؟

میرے دلنواز میرے باؤ جی! میں نے آخر میں آپ سے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اسلام اور نہ ہی پاکستان کا آئین اور قانون آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ عوام یا پاکستان کے کسی مجرم کو معاف کر سکیں۔ریاست کے حساس اداروں اور حساس مقامات پر حملہ کرنا، عورتوں کو باجماعت گالیاں دینا، شہدا کی یادگاریں توڑنا، قومی املاک کو نقصان پہنچانا،ترقی کرتے پاکستان کا تیاپانچا کرنا، جرائم کی طویل فہرست ہے لیکن کہنا اتنا ہی ہے کہ آپ اپنے ذاتی جرائم معاف کر سکتے ہیں لیکن کسی لاڈلے خان کو قومی جرائم معاف کرنے کا آپ کوئی استحقاق نہیں رکھتے۔لہذا صحافت کے بزرجمہروں اور آپ سے بھی میری درخواست یہی ہے کہ قانون کو راستہ لینے دیں کیونکہ کبھی کبھی سزا ہی اصلاح ہوا کرتی ہے اور ویسے بھی جب بدن کا کوئی عضو خراب ہو جائے تو اس کی سرجری کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو وہ عضو گل سڑ کر ضائع بھی ہو سکتا ہے بلکہ باقی کے جسم کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -