۔۔۔ اور تاریخ بدل گئی
گذشتہ53سال سے دسمبر کے مہینے کی 16تاریخ ہمارے دِل کا زخم بنی ہوئی ہے۔ یہ دن آتا ہے تو آنکھوں کے سامنے وہ منظر بھی آتا ہے جب پلٹن کے میدان میں لیفٹیننٹ جنرل عبداللہ خان نیازی بھارت کے جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے بیٹھے سرنڈر کی دستاویز پر دستخط کر رہے تھے۔ اپنا پستول اُسے پیش کر کے اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر رہے تھے۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن رہا تھا۔ بھارتی فوج خود کو فاتح سمجھ رہی تھی۔ عوامی لیگ کے کارکن جشن منا رہے تھے۔۔۔(مغربی) پاکستان میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات نے یہ خبراپنے قارئین تک اِن الفاظ میں پہنچائی تھی:”بھارتی فوجیں ایک معاہدے کے تحت ڈھاکہ میں داخل ہو گئیں“۔۔۔لوگ دم بخود تھے،کوئی دھاڑیں مار کر رو رہا تھا تو کسی پر سکتے کا عالم طاری تھا۔کوئی غصے سے پاگل ہو رہا تھا تو کوئی سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔اہل ِ دانش اور اہل ِ سیاست میں ایسے افراد موجود تھے جو واننگ دے رہے تھے کہ جو کچھ ہو رہا تھا،جو کیا جا رہا تھا،اُس کا انجام بُرا ہو گا لیکن بڑی تعداد میں اُن کا مذاق اڑانے والے بھی پائے جاتے تھے، وہ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے نیتاؤں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اتنی تیزرفتاری سے وہ ہو جائے گا،جو اُن کی شدید خواہش تو تھی جس کے اِس طرح وقوع پذیر ہونے پر اُن کو بھی یقین نہیں تھا۔ اُس دن مجھ پر ایسی کپکپی طاری ہوئی کہ کئی کمبل اوڑھنے کے باوجود تھمنے میں نہیں آ رہی تھی۔ رفقائے کار نے خدا معلوم کتنے جتن کر کے اِس پر قابو پایا۔ گذشتہ 53سال کے دوران کبھی میں نے16دسمبر کو کسی تقریب ِ مسرت میں شرکت نہیں کی۔کسی بارات یا ولیمے کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ عزیزم عمر شامی کی شادی کی تاریخ 15دسمبر قرار پائی کہ اُن کے سسرال کا اِس پر اصرار تھا، نکاح تو اُس روز ہو گیا لیکن ولیمہ دوسرے نہیں تیسرے دن ہوا۔ 16دسمبر کو اِس کا انعقاد مجھے گوارا نہیں تھا۔ گذرجانے والے53سالوں کے دوران بہت کچھ گذر گیا اور بہت کچھ بدل گیا۔ یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور ان سے بڑھ کر مسز اندرا گاندھی کے کردار اور اعمال پر گفتگو جاری ہے اور جاری رہے گی کہ اِن چاروں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہوتا تو یہ سانحہ پیش نہیں آ سکتا تھا۔
اگر یحییٰ خان جیسا منہ زور ہم پر مسلط نہ ہوتا، مارشل لاء کے نفاذ کی نوبت نہ آتی،پاکستان میں دستوری اور جمہوری عمل برقرار رہتا،ایوب خان کی قومی اسمبلی کو آئین میں وہ ترامیم کرنے کا موقع دے دیا جاتا، حزبِ اختلاف کی کئی جماعتوں کے ساتھ جن پر اتفاق ہو گیا تھا تو یہ روزِ سیاہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔اگر شیخ مجیب الرحمن ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرتے اور علی الاعلان مغربی پاکستان کے ساتھ مفاہمت کا ارادہ ظاہر کر دیتے،اگر یحییٰ خان دستور ساز اسمبلی کے انتخابات نہ کراتے،کرا دیے تھے توقومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہ کرتے،اپنی بااختیار صدارت پر اصرار نہ کرتے تو بھی حالات کا رُخ مختلف ہوتا۔اگر ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کی اپنی دھن میں مگن نہ ہوتے اور ڈنکے کی چوٹ شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کر دیتے اور واضح کرتے کہ جھگڑا آئین کا ہے،اقتدار کا نہیں تو بھی یہ روزِ سیاہ ہمارے مقدر میں نہ لکھا جاتا۔اِس سب سے بڑھ کر اگر مسز اندرا گاندھی پاکستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہ کرتیں، اپنی فوجوں کو حرکت میں نہ لاتیں تو بھی ہم اپنے داخلی تضادات پر قابو پا لیتے، کسی نہ کسی طور کشتی کو ڈوبنے سے بچا لیتے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے اِن چاروں کرداروں میں سے تین کو غیر فطری موت نصیب ہوئی۔ صرف یحییٰ خان بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرا۔ مسز اندرا گاندھی اپنے محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں، شیخ مجیب الرحمن کو ان کی اپنی فوج نے بھون ڈالا۔ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنے ہی نامزد کردہ چیف آف آرمی سٹاف کے دستخطوں سے تختہ ئ دار پر لٹکا دیے گئے۔1985ء میں جب ڈھاکہ میں سارک کی بنیاد رکھی گئی تو وہاں جنرل ضیاء الرحمن کی حکومت تھی۔ پاکستان سے جنرل ضیاء الحق شرکت کے لئے وہاں گئے تو اُن کے ساتھ جانے والے اخبار نویسوں میں راقم بھی شامل تھا۔شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد صدارت کا منصب سنبھالنے والے مشتاق خوندکر سے ملنے گیا تو انہوں نے بتایا کہ جب مسز گاندھی کو ہلاک کیا گیا تو ڈھاکہ کے سب سے بڑے اخبار ”بنگلہ دیش آبزرور“ کے صفحہ اول پر شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کی تصاویر ایک ساتھ چھاپی گئی تھیں،یہ سقوطِ ڈھاکہ کے تینوں کرداروں کے غیر فطری انجام کی طرف اشارہ تھا،اُس روز کا یہ اخبار ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا، لوگ اِس کی کاپی ڈھونڈتے پھر رہے تھے جو مل نہیں رہی تھی،گویا ڈھاکہ کے باسی بھی تاریخ کی اِس گواہی میں اپنی گواہی ملا رہے تھے۔
53سال گذرنے کے بعد16دسمبر کا سورج اِس سال مختلف منظر دِکھا رہا ہے۔ تاریخ یکسر بدل چکی ہے۔بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد کا تختہ عوام نے اُلٹ دیا ہے۔ شیخ صاحب کے مجسمے مسمار کر دیے گئے ہیں۔عوامی لیگ کے متعلقین کا جینا دوبھر ہو رہا ہے۔قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے دن منائے جا رہے ہیں۔ تحریک پاکستان سے اپنا ناتہ ازسرِ نو جوڑا جا رہا ہے۔بنگلہ دیش کی تخلیق میں اپنے کردار پر فخر کرنے والے بھارت کو حد میں رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔پاکستان سے تعلق کو مضبوط بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔طلبہ رہنماء اور اہل ِ دانش ڈنکے کی چوٹ کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں بھارت کی غلامی منظور نہیں ہے،اِسے بنگلہ دیش کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان کے ساتھ کنفیڈریشن قائم کرنے کی تجویزیں پیش کی جا رہی ہیں کہ بنگلہ دیش تین طرف سے بھارت سے گھرا ہوا ہے، تو چوتھی طرف سمندر ہے، گویا بھارت کو بنگلہ دیش کا اکلوتا ہمسایہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جغرافیے کی یہی مجبوری پاکستان سے مضبوط تعلق کا جواز فراہم کرتی ہے۔مشرقی بنگال کو مغربی پاکستان کے ساتھ ملا کر پاکستان بنانے کے پیچھے بھی یہی دلیل تھی کہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے بند اِسی طرح باندھا جا سکتا تھا۔ اِسی لئے حسین شہید سہروردی مرحوم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب ارکانِ اسمبلی کے دہلی اجلاس میں یہ قرارداد منظور کرائی تھی کہ مسلم اکثریت کے مشرقی اور مغربی منطقوں پر مشتمل ایک ہی ریاست قائم کی جائے۔ (مغربی) پاکستان میں ابھی تک اِس حوالے سے کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی،خاموشی سے حالات کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔وہ دن جلد آئے گا جب یہاں سے بھی آوازیں اُٹھنا شروع ہوں گی، تحریک پاکستان کا نئے انداز سے آغاز ہو گا، 16دسمبر1971ء پر جو خط ِ تنسیخ پھر چکا ہے وہ گہرا ہوتا جائے گا۔ بنگالی بھائی جن تجربات سے گذر چکے اور ہم نے جو ماہ و سال گذارے ہیں، اُن سے یہ نتیجہ ضرور اخذ کر لینا چاہیے کہ عوام کی طاقت سے ٹکرانے والے پاش پاش ہو جاتے ہیں،بندوق اپنی ہو یا پرائی اُس کی غلامی قبول نہیں کی جا سکتی۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اورروزنامہ ”دنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
٭٭٭٭٭