میرا اگلا پڑاؤ ابو سمبل کے کھنڈرات تھے، ایک چرواہے نے ان کی نشاندہی کی تھی، یہ سب ناصر جھیل کے پانیوں میں غرق ہو جانے والے تھے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:92
کشتی اس ٹیلے کے نیچے آکر رک گئی اورہم کافی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے۔ یہ گلابی رنگ کے پتھروں کی بنی ہوئی ایک سادہ اور مستطیل عمارت تھی جس کی چھت پر چاروں کونوں میں چھوٹے چھوٹے مینار بنائے گئے تھے اور عین وسط میں ایک چھوٹا سا گنبد تھا۔ مقبرے کے چھت کی بالائی دیواروں پر چاروں طرف کنگر ے سے بنے ہوئے تھے۔
سامنے لکڑی کا ایک عظیم ا لشان مرکزی دروازہ ہے جو دریائے نیل کی طرف کھلتا ہے۔ چبوترے پر گولائی میں بنی ہوئی کئی پتھریلی سیڑھیاں ہیں جو اوپر مرکزی دروازے تک جاتی ہیں۔ یہ دروازہ عموماً بند ہی رہتا ہے، شائد اُن کی کسی خاندانی تقریب کے موقع پر کھلتا ہو۔ اس لئے سیاح وہاں اس چھوٹے سے مقبرے کے چاروں طرف گھوم کر ان ہی سیڑھیوں پر آکر بیٹھ جاتے ہیں اور دور نیچے بہنے والے دریا کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کچھ ٹکٹکی باندھے مزار کے پیچھے اور آس پاس ریت کے ٹیلوں اور چٹانوں کو حیرت سے تکتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ آغا خان نے اپنی رہائش اور تدفین کے لئے ایک بہترین جگہ کا انتخاب کیا تھا۔ دیکھنے کو زیادہ کچھ نہیں تھا وہاں، اس لئے پندرہ بیس منٹ میں واپس نیچے منتظر کشتی پر آگئے جو ہمیں لے کر واپس اسوان کے کشتی گھاٹ پر لے آئی۔ وہاں پہنچ کر سب نے گائیڈ اور بس والے کا شکریہ ادا کیا اور مشترکہ طور پر ان کو معقول بخشش بھی دی۔ بعدازاں بس والے نے ہمیں ہوٹل کے مرکزی دروازے پر اُتار دیا۔
آج کا دن بھی بڑا ہی تھکا دینے والا تھا۔ جی میں آیا کہ ایک روز کی چھٹی کرکے کچھ آرام کر لوں پھر خیال آیا کہ سیاحوں کے مقدر میں چھٹی نہیں ہوا کرتی۔ کچھ دیر یونہی میں محو استراحت رہا، پھر نیچے اتر آیااور کھانا کھا کر ایک بار پھر دریا کے کنارے بنی ہوئی سڑک پر چہل قدمی کیلئے نکل آیا۔
میرا اگلا پڑاؤ اس علاقے میں میری سیاحتی سرگرمیوں کی اختتامی منزل تھی۔ یہ ابو سمبل کے کھنڈرات تھے۔ جہاں کل دن کا بڑا حصہ گزار کر شام کو ایک بار پھر مجھے اسوان اسی ہوٹل میں واپس آ جانا تھا اور پھر یہیں سے مجھے قاہرہ کے لئے واپسی کی اُڑان بھرنا تھی۔
ابو سمبل
ابو سمبل بالائی مصر کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ آج سے چالیس پچاس برس قبل تک تو بہت ہی کم لوگ اس کے نام سے واقف ہونگے۔ جب اسوان ڈیم کامنصوبہ شروع ہوا تو اس کے سروے کے دوران علم ہوا کہ اسوان کے آس پاس کے علاقوں میں فرعونوں اور نیوبن حکمرانوں کے کچھ مندر اور مقبرے پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ مشہور بادشاہ رعمیسس ثانی اور اس کی ملکہ نفرتاری کے کئی دیو ہیکل مجسمے اور ان کے دوعظیم الشان مندربھی وہیں ایستادہ تھے۔ ان کو وہاں واقع ایک بڑی پہاڑی کی چٹانوں کو تراش کر بنایا گیا تھا اور ان کو ایک نظر دیکھنے کے لئے ساری دنیا سے سیاح جوق در جوق وہاں کھنچے چلے آتے تھے۔ اس سے پہلے یہ مندر اور مجسمے کئی صدیوں تک ریت کی دبیز تہوں تلے دبے دنیا والوں کی نظر سے اوجھل رہے تھے۔ پھر حادثاتی طور پریہ 1813 میں دریافت ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابو سمبل نامی ایک چرواہے نے ان کی نشاندہی کی تھی، اس لئے اس کے ہی نام پر ان کویہ نام دے دیا گیا۔ اور اب یہ سب مندر اور مجسمے اسوان ڈیم بن جانے کے نتیجے میں وجود میں آنے والی ناصر جھیل کے پانیوں میں غرق ہو جانے والے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا قومی نقصان تھا، کیونکہ مصر کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان علاقوں میں ہونے والی سیاحتی سرگرمیوں سے حاصل ہوتا تھا۔دوسری طرف عالمی برادری بھی اتنی آسانی سے ایسے قیمتی اثاثے گنوانا نہیں چاہتی تھی، جن کو عالمی ورثہ قرار دیا جا چکاتھا۔ اس مسئلے کے حل کی خاطر بڑے ممالک سر جوڑ کر بیٹھے اور طے پایا کہ ان مجسموں اور مندروں کو ان کے موجودہ مقامات سے اٹھا کر مجوزہ جھیل کے کناروں پر کہیں اونچی جگہوں پر منتقل کر دیا جائے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں