اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 114

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 114

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہندوؤں کی فوج نے لاہور قلعے کا محاصرہ کررکھا تھا۔میں قلعے کے تہہ خانے میں زنجیروں میں جکڑا پڑا تھا۔ قلعے میں مسلمانوں کی اتنی فوج نہیں تھی کہ وہ باہر نکل کر ہندو فوج کا مقابلہ کرسکتی۔ لاہور قلعے کے امیر اژگرخان نے اپنا ایک خاص آدمی ملتان کے صوبے دار کی طرف روانہ کردیا تھا اور اس سے امداد طلب کی تھی۔ ہندو راجوں کا مشترکہ لشکر قلعے سے کچھ فاصلے پر میدان میں خیمہ زن تھا۔ اس دوران چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔ ہندو قلعے کی کھائی پر پل بنانے کی کوشش میں آگے بڑھتے تو قلعے کے اوپر سے غزنوی فوج کے تیر انداز ان پر تیروں کی بوچھاڑیں مارتے۔ قلعے میں چھ ماہ کی رسد موجود تھی۔ پھر بھی خطرہ تھا کہ اگر ہندو قلعے کی کھائی پاٹنے میں کامیاب ہوگئے تو مسلمانوں کے لئے مشکلات پیداہوسکتی تھیں کیونکہ قلعے میں فوج کی نفری ہندو لشکر کے مقابلے میں کم تھی۔ قلعے کا امیر اژگرخان ملتان سے آنے والی مدد کا بے تابی سے انتظار کررہا تھا۔ ادھر میں تہہ خانے میں پڑا سزا یا باعزت بریت کے انتظار میں تھا۔ میں زنجیروں اور تہہ خانے کا دروازہ بڑی آسانی سے توڑ کر باہر نکل سکتا تھا لیکن میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ میں یہاں کے تناظر میں کون ہوں؟ میری حیثیت کا تعین کیا ہوا ہے؟ میرا قصور کیا ہے اور قلعے دار امیر اژگرخان مجھے کیوں اپنے ہاتھ سے قتل کرنا چاہتا ہے۔ 

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 113 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آخر ایک روز دو سپاہی تہہ خانے میں آئے اور مجھے اپنے ساتھ اوپر لے گئے، محل کے دربار میں امراء اور منصب دار اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ قلعے دار اژگر خان ایک تخت پر براجمان تھا۔ گھنی مونچھیں، خونخوار چہرہ، بھاری تن و توش مجھے چنگیز خان کی فوجوں کے سالار یاد آگئے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی اپنی سرخ آنکھوں کو سکیڑا اور غصیلی آواز میں بولا۔’’ اپنے دشمن کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھ کر مجھے خوشی ہورہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے اس بات کی ہو رہی ہے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔‘‘
میں نے دل میں کہا کہ تم کیا ہو اگر تمہاری فوج بھی آجائے تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی لیکن میں اس کی زبان سے یہ سننے کو بے تاب تھا کہ میں کون ہوں؟ کس اعتبار سے اس کا دشمن ہوں اور مجھے کس جرم کی پاداش میں اپنے ہاتھوں سے قتل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ درباری بھی میری طرف نفرت بھری فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ امیر اژگر خان تخت سے اتر کر میرے قریب آیا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غرایا ’’تم ہر بار میری ریاست میں ڈاکہ ڈال کر لوگوں کو قتل کرکے فرا رہوجاتے تھے۔ آج تم پکڑ لئے گئے لیکن ایک بات بتاؤ۔ تم خود کس طرح میرے قلعے میں آگئے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ تم پہچان لئے جاؤ گے۔ پھر تم نہتے بھی ہو۔‘‘
میں صرف اتنا سمجھ سکا کہ میں کسی خطرناک قاتل ڈاکو کی حیثیت سے اس قلعے میں نمودار ہوا ہوں۔ اب میں نے بھی ز بان کھولی اور کہا
’’اے امیر! یہ تم بھی جانتے ہو کہ میں ایک مسلمان ہوں اور کفار کے لشکر قلعے پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ پس میں مسلمانوں کی طرف سے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کے خیال سے قلعے میں آگیا تھا۔‘‘
امیر اژگر خان نے ایک بلند قہقہہ لگایا اور دانت پیش کر بولا
’’تم جھوٹ بکتے ہو۔ تم کافروں سے لڑنے نہیں بلکہ اس افراتفری میں موقع نکال کر مجھے قتل کرنے کی نیت سے یہاں آئے تھے۔ بولو۔ کیا میں غلط کہتا ہوں؟ اگر تم جابر خان ڈاکو ہو تو میں بھی اژگر خان ہوں۔ غزنوی فوج کا سب سے بہادر امیر۔۔۔!‘‘
فوج کا سپہ سالار تخت کے پہلو میں کھڑا تھا۔ اس نے کہا ’’عالی مرتبت امیر! حکم دیجئے کہ میں تلوا رکے ایک ہی وار سے آپ کے اور رعایا کے دشمن کی گردن اڑادوں۔‘‘
امیر اژگر خان نے میری طرف گھورتے ہوئے دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا اور گرج کر کہا’’نہیں جابر خان ڈاکو میرا دشمن ہے۔ یہ میرا شکار ہے۔ میں اسے اپنے ہاتھوں زمین میں زندہ دفن کروں گا۔‘‘
میرے سر سے ایک بوجھ تو اترگیا کہ میں کون ہوں او رمیرے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ میں نے کہا
’’امیر اژگر خان! آپ اسے نہیں سمجھ سکیں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں نہ تو آپ کا دشمن ہوں اور نہ آپ کی رعایا کا اور مجھے زندہ دفن کرکے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘
امیر اژگر خان نے ایک اور طنزیہ قہقہہ لگایا اور سپہ سالار کی طرف متوجہ ہوکر کہا’’پائندہ خان! محل کے پائین باغ میں ہمارے مہمان کے لئے قبر فوراً کھودی جائے۔‘‘
سپہ سالار پائندہ خان ادب سے تعظیم بجالانے کے بعد دربار سے باہر نکل گیا۔ سپاہیوں نے مجھے دربار کے پہلو میں واقع ایک تاریک حجرے میں بند کردیا۔ میں اب اپنے زندہ دفن کئے جانے کا انتظار کرنے لگا کیونکہ اس کے بعد ہی میں اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرسکتا تھا۔ کچھ وقت کے بعد مجھے حجرے سے نکال کر محل کے پائیں باغ میں لے جایا گیا۔ جہاں نیم دائرے کی صورت میں درباری ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ان کے آگے خود امیر اژگر خان ایک تخت پر بیٹھا تھا اور سامنے چار سپاہی قبر میں سے مٹی باہر نکال رہے تھے۔ قبر کافی گہری کھودی گئی تھی۔ مجھے میری قبر کے اوپر ایک جانب کھڑا کردیا گیا۔ امیر اژگر خان اپنی گھنی مونچھوں کو بار بار تاؤ دے رہا تھا۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ دو سپاہیوں نے مجھے ز نجیروں سمیت قبر میں دھکا دے دیا۔ سات فٹ گہری خندق نما قبر میں دھڑام سے گر پڑا۔ اس کے ساتھ ہی اوپر سے مجھ پر بڑے بڑے پتھر اور مٹی گرنے لگی۔ دیکھتے دیکھتے قبر بھر گئی۔ میں پتھروں اور منی مٹی کے نیچے دفن پڑا تھا اور ایسے دھماکوں کی آواز سن رہا تھا کہ جیسے بھاری بھرکم لڑکی کے مگدروں سے قبر کی مٹی کو نیچے دبایا جارہا ہے۔
اس کے بعد گہری خاموشی چھاگئی۔ میرا سارا جسم مٹی میں دبا ہوا تھا۔ مٹی کا بوجھ بہت زیادہ تھا مجھے ا یسا لگ رہا تھا جیسے میں سکوت کے پاتال میں اتر گیا ہوں۔ مجھے سوائے اپنے سانس کے چلنے کے اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میں چاہتا تو اسی وقت قبر سے باہر نکل سکتا تھا مگر میں کچھ وقت قبر میں گزرنا چاہتا تھا۔ جس وقت مجھے قبر میں زندہ دفن کیا گیا اس وقت دوپہر کے بعد کا وقت تھا میں نے سوچا کہ کم از کم دو روز تک اس قبر میں رہنا چاہیے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور اپنے آپ کو ماضی کی دنیا کی یادوں میں سمودیا اور منوں مٹی کے نیچے ساکت ہوکر پڑگیا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میر اجسم تو قبر کے اندر پڑا ہے مگر روح قدیم مصر یونان کے شہروں او رمحلوں میں گشت لگارہی ہے۔ مجھے صحیح اندازہ نہیں تھا کہ میں کب تک اس حالت میں قبر کے اندر پڑا رہا لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ مجھے کافی دیر گزرگئی ہے تو میں نے اپنے اوپر اوراردگرد سے مٹی اور پتھروں کو ہٹانا شروع کردیا۔ میرے لئے یہ کوئی مشکل نہیں تھا۔ معمولی سی جدوجہد کے بعد میں قبر سے باہر نکل آیا۔ میں نے اپنی زنجیروں کو قبر کے اندر ہی توڑ ڈالاتھا۔ قبر سے باہر نکلتے ہی میں نے دیکھا کہ رات کا وقت ہے۔ شاہی محل میں کہیں کہیں روشنی ہورہی تھی۔ خاموشی اور سناٹا گہرا تھا۔ لگتا تھا رات کافی گزرچکی ہے۔ پائین باغ میں کوئی سپاہی نظر نہیں آرہا تھا۔ میں محل کے بڑے دروازے کی طرف چلنے لگا۔ میں امیر اژگر خان سے ملنا چاہتا تھا اور اسے بتانا چاہتا تھا کہ میں اس کا دشمن نہیں ہوں اور کسی درویش کی دعا سے میرے اندر ایسی طاقت پید اہوچکی ہے کہ کوئی پچاس برس تک مجھے ہلاک نہیں کرسکتا۔(جاری ہے )

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 115 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں