اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 115
محل کے دروازے پر دو سپاہی پہرہ دے رہے تھے اور مشعلیں روشن تھیں۔ انہوں نے میرے مٹی میں اٹے ہوئے کپڑوں کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔ پہلے تو وہ دہشت زدہ ہوکر چند قدم پیچھے ہٹے پھر انہوں نے تلواریں سونت لیں اور مجھے قتل کرنے کے لئے دوڑے۔ میں نے ان کی تلواروں کے وار اپنی ہاتھ پر لئے۔ میرے ہاتھ سے ٹکراتے ہی ان کی تلواریں ٹوٹ گئیں۔ وہ اب اور زیادہ خوفزدہ ہوگئے۔ میں نے کہا’’مجھے امیر کے پاس لے چلو۔ مجھے اس سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔‘‘
وہاں چند لمحوں میں ہی شور مچ گیا کہ ڈاکو جابر خان دو روز قبر میں دفن رہنے کے بعد زندہ باہر نکل آیا ہے۔ تو گویا میں دو روز تک قبر میں بند رہا تھا۔ محل کے لوگ بھی شور سن کر بیدار ہوگئے۔ مجھے ایک بار پھر گرفتا رکرلیاگیا۔ اتنے میں محل کی دوسری منزل کی بارہ دری میں امیر اژگر خان نمودار ہوا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو ششدر رہ گیا۔ اس نے سپاہیوں کو اشارہ کیا کہ مجھے اوپر لایا جائے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 114 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں امیر کے سامنے کھڑا تھا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے تک رہا تھا۔ میں ادب سے اس کی تعظیم بجالایا اور کہا’’عالی مرتبت امیر! میں تنہائی میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
اس نے سپاہیوں کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور خود تلوار نیام سے کھینچ کر اپنے ہاتھ میں پکڑلی۔ جب میں اور امیر اژگر خان وہاں اکیلے رہ گئے تو میں نے کہا
’’اے امیر! میں تمہارا دشمن نہیں ہوں۔ اگر تم مجھے ڈاکو جابر خان ہی سمجھتے ہو تو بے شک سمجھو لیکن یقین کرو میں نے کبھی تمہیں ہلاک کرنے کی نیت نہیں کی اور میں نے تمہاری رعایا میں سے بھی کسی شخص کو قتل نہیں کیا۔‘‘
امیر اژگر خان اپنی گھنی داڑھی کھجاتے ہوئے بولا ’’مگر پہلے یہ بتاؤ کہ تم قبر میں دو روز تک زندہ دفن رہنے کے بعد زندہ کیسے باہر نکل آئے۔‘‘
میں نے مسکرا کر کہا ’’یہی بات میں تمہیں بتانے والا تھا سنو! مجھے ایک درویش کی دعا ہے کہ میں پچاس برس تک کسی تلوار، زہر، تیر یا زمین میں دفن کردئیے جانے یا کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دینے سے ہلاک نہیں ہوں گا۔ اس کا ثبوت تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ میں دو روز قبر میں منوں مٹی کے نیچے دفن رہنے کے بعد زندہ حالت میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔‘‘
امیر اژگر خان مجھے سر سے پاؤں تک گھوررہا تھا۔ کہنے لگا ’’تم میرے پاس کیوں آئے ہو۔‘‘
میں نے کہا ’’میں کفار کے حملے کے خلاف جہادمیں شریک ہوکر تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں ۔ لاہور کو بچانا چاہتا ہوں۔‘‘
امیر نے مجھے کسی پر بیٹھنے کو کہا۔ یہ امیر اژگر خان کا کمرہ خاص تھاوہ خود تلوار ایک طرف رکھ کر مسند پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ میں اس کی کیا مدد کرسکتا ہوں۔ اس نے کہا کہ ملتان سے مسلمانوں کے لشکر کی امداد ابھی تک نہیں پہنچی۔ ہوسکتا ہے اس کے ایلچی کو دشمنوں نے راستے میں ہی قتل کردیا ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ تم خود برق رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر ملتان جاؤ اور وہاں سے مسلمانوں کی فوج لے کر یہاں آؤ، چونکہ تم ہلاک نہیں کئے جاسکتے اس لئے مجھے یقین ہے کہ تم خیریت سے ملتان پہنچ جاؤ گے۔‘‘
میں نے اب امیر اژگر خان کو اپنے منصوبے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا
’’عالی مرتبت امیر! اگر ملتان کے لشکر کے آنے سے پہلے ہی کفار کا لشکر تتر بتر ہوجائے تو کیا یہ اچھا نہیں ہے؟‘‘
’’یہ کس طرح ممکن ہے؟‘‘ امیر نے سوال کیا۔
میں نے کہا ’’میرے پاس ایک منصوبہ ہے اور اسی منصوبے کو ذہن میں لے کر میں آپ کے پاس آیا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہندو لشکر میں کسی طریقے سے گھس کر ان کے سپہ سالار اور دوسرے سالاروں کو قتل کر ڈالوں اور ان کے خیموں میں آگ لگادوں۔ اس طرح سے ہندو لشکر میں افراتفری مچ جائے گی۔ ایسی صورت میں ساری فوجیں قلعے سے نکل کر ان پر ٹوٹ پڑیں تو فتح تمہارے قدم چومے گی لیکن اس کے لئے مجھے بتانا ہوگا کہ تمہارے فوجی مخبروں کی اطلاعات کے مطابق اس ہندو لشکر کا سب سے بڑا سرغنہ اور سپہ سالار کون ہے اور دوسری فوجوں کے بڑے سپہ سالار کون کون ہیں تاکہ میں انہیں اپنا نشانہ بناسکوں۔‘‘
امیر اژگر خان میرے منصوبے پر غو رکرنے لگا۔ وہ کمر پر ہاتھ باندھے ٹہلنے لگا۔ پھر میری طرف متوجہ ہوکر بولا
’’اگر تم اس منصوبے میں کامیاب ہوجاؤ تو یہ ہماری بہت بڑی فتح ہوگی۔ میرے پاس مجاہدین کا اتنا لشکر ضرور ہے کہ کفار کی بھاگتی ہوئی فوج پر حملہ کرکے تہہ تیغ کر ڈالے۔‘‘
پھر اس نے مجھے بتایا کہ ہندوؤں کے لشکر میں چار ریاستوں کی فوجیں شامل ہیں جن کے الگ الگ سپہ سالار ہیں اس اجتماعی فوج کا سپہ سالار رگھوناتھ سہائے ایک مرہٹہ ہے۔ تین سپہ سالاروں میں سے ایک جاٹ ہے اور دو مرہٹے ہیں اور وہ رگھوناتھ کے ساتھ ہی ہتے ہیں۔‘‘
’’مگر سپہ سالار رگھوناتھ سہائے کے خیمے تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس کا خیمہ لشکری خیموں کے عین درمیان میں لگا۔ اگر تم ہلاک نہیں بھی کئے جاسکے تب بھی اس کے خیمے تک پہنچتے ہی سپہ سالار کو خبر ہوجائے گی اور وہ اپنا بچاؤ کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’میں اس منصوبے کے اس پہلو سے بخوبی واقف ہوں اس لئے میں ایک خاص بھیس میں رگھوناتھ سہائے کے خیمے تک پہنچوں گا۔‘‘
امیر اژگر خان کچھ سوچنے لگا پھر بولا
’’اگر تم اسے اور اس کے ساتھی سپہ سالاروں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئے تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ مجھے ہندو فوج پر حملہ کردینا چاہیے۔‘‘
میں نے کہا ’’جب میں ان سپہ سالاروں کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو خیموں میں آگ لگادوں گا۔ قلعے کے محافظوں کو جب دور دشمن کے لشکر میں دھواں اور آگ کے شعلے اٹھتے دکھائی دیں تو فوراً حملہ کردیا جائے۔‘‘
جب یہ منصوبہ طے ہوگیا تو میں نے دوسرے دن صبح اپنے سرمنڈواکر ماتھے پر تلک لگایا۔ کھڑاویں پہنیں۔ ہاتھ پر چمٹا اور کرمنڈل پکڑا۔ گلے میں مالائیں ڈالیں اور اکیلا ہی قلعے کے چور دروازے سے نکل کر دوسری طرف سے ہوکر کفار کے خیموں کی طرف روانہ ہوگیا۔
ہندوؤں کا لشکر قلعے سے دور ایک سنگلاخ میدان کے پار کیکر اور پھلاہی کے ایک وسیع و عریض جنگل مین خیمہ زن تھا۔ دن کی روشنی چاروں طرف بکھری ہوئی تھی، دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ میں شمال کی طرف مٹی کے تودوں کے پیچھے سے ہوکر ان خیموں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اب مجھے ہندو لشکر کے خیموں کے اوپر لہراتے جھنڈے دکھائی دینے لگے تھے، ان خیموں کی تحفظاتی حدود میں پہنچا تو میں نے چمٹا بجاتے ہوئے رامائن کا پاٹھ کرنا شروع کردیا۔ میں رامائن کے اشلوک گا بھی رہا تھا اور آہستہ آہستہ رقص بھی کررہا تھا۔ جس طرح کہ اس زمانے کے ہندو جوگی کیا کرتے تھے یہاں ہندو سپاہی جگہ جگہ جھاڑیوں کے پیچھے چل پھر کر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو میرے قریب آگئے۔
’’کون ہو تم؟‘‘ ایک سپاہی نے تحکمانہ انداز میں پوچھا
میں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور کہا
’’ہم رام نام کے جوگی ہیں۔ بھگوان کرشن کے بھجن گاتے ہیں اور تمہارے لئے پراپرتھنا کرتے ہیں کہ تم مسلمانوں کو ماربھگاؤ۔‘‘
ان کا مجھ پر شک ہونا بے جانہ تھا کہ ہوسکتا ہے کہ میں مسلمانوں کا جاسوس ہوں اور جوگی کا بھیس بدل کر ان کے فوجی راز معلوم کرنے وہاں آگیا ہوں۔(جاری ہے )