اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 116

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 116

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس سپاہی نے سب سے پہلے میری تلاشی لی پھر کہا’’سوامی جی! ٹھیک ہے آپ رام نام کے جوگی ہیں مگر آپ دوسری طرف سے ہوکر آگے گزرجائیں میں آپ کو لشکریوں کے خیموں کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘
میں نے پرنام کرتے ہوئے کہا ’’جو حکم مہاراج! ہمیں تمہارے خیموں کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے بابا۔‘‘ اور میں دوسری طرف روانہ ہوگیا۔ نصف کوس جانے کے بعد میں دوبارہ خیموں کی طرف رخ کیا۔ یہاں بھی ہندو سپاہی پہرہ دے رہے تھے، ابھی میں ان سے کچھ فاصلے پر تھا کہ مجھے ایک جھاڑی میں کالا سانپ رینگتا نظر آیا۔ اس سانپ کو دیکھتے ہی مجھے ایک خیال سوجھا۔ میں نے آگے بڑھ کر سانپ کو پکڑلیا۔ کم بخت سانپ نے میری کلائی پر ڈس لیا۔ لیکن اس کے ڈسنے سے کیا ہوسکتا تھا۔ میں نے سانپ کو اپنی کلائی کے ساتھ لپیٹ لیا۔ سانپ نے دو تین بار مجھے ڈسا لیکن جب اس کے دانت تینوں بار سخت پتھر جیسی کلائی سے ٹکرائے تو وہ خاموش ہوگیا اور میری کلائی سے لپٹا رہا۔ میں نے اس کی گردن انگلیوں میں پکڑلی اور سپاہیوں کی طرف بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کوئی سوال کرتے میں نے جاتے ہی اپنا سانپ والا ہاتھ فضا میں بلند کیا اور کہا

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 115 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’پربھوتت ست! ہم شیو شنکر کے گندھرو ہیں ہمیں دیوتا شنکر نے تمہارے سپہ سالار رگھوناتھ سہائے کے نام ایک خاص پیغام دے کر بھیجا ہے ہمیں اپنے سپہ سالار تک پہنچاؤ۔‘‘
میری آواز میں ایسی کڑک تھی اور اس میں اس روانی سے سنسکرت کے اشلوک پڑھ رہا تھا کہ سپاہی مجھ سے متاثر ہوگئے۔ پھر انہوں نے میری کلائی سے لپٹا ہوا ایک زہریلا ناگ بھی دیکھ لیا تھا۔ اس کے باوجود مجھے آگے بڑھنے کی اجازت دیتے ہوئے ہچکچارہے تھے۔ اب میں نے چمٹا بجاتے ہوئے رقص کرنا شروع کردیا اور جان بوجھ کر کالے ناگ کو زمین پر چھوڑ دیا۔ سانپ کو زمین پر رینگتے دیکھ کر سپاہی ایک دم پیچھے ہٹ گئے لیکن سانپ پہلے ہی بہت ڈرا ہواتھا۔ زمین پر گرتے ہی وہ تیزی سے رینگتا ہوا سپاہیوں کی طرف لپکا۔ ایک سپاہی نے اس پر تلوار کا وار کیا مگر سانپ نے اچھل کر اس کی گردن پر ڈس دیا۔ دوسرے سپاہیوں نے سانپ کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے اور اپنے ساتھی کو سنبھال کر زمین پر لٹادیا۔ میں یہی چاہتا تھا اب میں نے بلند آواز سے کہا
’’سانپ دیوتاؤں کا دیوتا تھا تم نے اسے ہلاک کرکے پاپ کیا ہے مگر تمہارے ساتھی کی جان بچالوں گا۔ پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘
سپاہی جلدی سے پیچھے ہٹ گئے۔ میں نے اپنے جھولے میں سے اپنے دوست کا دیا ہوا سبز رنگ کا سانپ کا مہرہ نکالا اور سپاہی کی گردن پر اس جگہ رکھ دیا جہاں سانپ نے ڈسا تھا۔ مہرے نے فوراً سپاہی کے جسم سے زہر کھینچنا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مہرہ زہر پینے سے پھول گیا اور سپاہی جو مررہا تھا ہوش میں آگیا۔
میں نے مہرے کا زہر نچوڑ کر اسے اپنے جھولے میں ڈالا اور بولا
’’سجنو! یہ شیو شنکر مہاراج کا دیا ہوا مہرہ تھا جس کے چمتکار نے تمہارے ساتھی کی جان بچالی۔ اب تم شیو شنکر دیوتا کی اچھیا پوری کرو اور مجھے اپنے سپہ سالار رگھوناتھ سہائے کے پاس لے چلو۔‘‘
ہندو ویسے بھی ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں اور پھر میں نے انہیں اپنی کرامت بھی دکھادی تھی۔ وہ مجھ سے بہت متاثر ہوئے جس سپاہی کی میں نے جان بچائی تھی وہ ان کا سردار تھا وہ تو ہاتھ باندھ کر میرے سامنے کھڑا ہوگیا اور بولا’’مہاراج! میرے ساتھ چلئے۔ میں آپ کو اپنے سیناپتی جی کے خیمے تک لئے چلتا ہوں۔ مگر وہاں ان کے خاص سپاہیوں کا دستہ پہرہ دیتا ہے ان کو راضی کرنا آپ کا کام ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’بچہ تم فکر نہ کرو۔ بھگوان شنکر مجھے تمہارے سینا پتی تک ضرور پہ نچادیں گے۔ چلو تم مجھے اس کے خیمے تک لے چلو۔‘‘
چار سپاہی مجھے اپنے حصار میں لے کر لشکریوں کے خیموں کے درمیان سے گزرنے لگے۔ میں ان سب خیموں کو گہری نظر سے دیکھ رہا تھا۔ ہم آدھ گھنٹے تک خیموں کے شہر کے درمیان چلتے رہے۔ واقعی یہ تو ہندوؤں کا ایک بہت بڑا لشکر تھا اور قلعہ لاہور میں مقیم مسلمان فوجیوں کی نفری اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی میں نے دیکھا کہ ان ہندو فوجیوں میں مرہٹہ سپاہیوں کی تعداد زیادہ تھی ہر مرہٹہ خیمے کے اوپر دوکونوں والا بھگوا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ ہندو سپاہی اپنے خیموں کے باہر بیٹھے مجھے دلچسپ نظروں سے دیکھ رہے تھے چند ایک ضعیف الاعتقاد سپاہیوں نے اٹھ کر مجھے ہاتھ جوڑ کر پرنام بھی کیا۔
ہندو لشکر کے سینا پتی رگھوناتھ سہائے کا کشادہ گیروا خیمہ ان خیموں کے بیچ میں ایک کھلی جگہ پر لگا تھا اور اس کے اردگرد مرہٹہ سپاہیوں کا ایک پورا دستہ پہرہ دے رہا تھا۔ ہمیں خیمے سے پچاس قدم پیچھے ہی روک لیا گیا۔ سپہ سالار کے محافظ دستے کے مرہٹہ سپاہی بڑے اجڈ اور خونخوار قسم کے تھے۔ انہوں نے مجھے سپہ سالار کے پاس لے جانے سے صاف انکار کردیا۔ نہ صر ف انکار کیا بلکہ انہوں نے ان سپاہیوں کو بھی گرفتار کرلیا جو مجھے وہاں تک لائے تھے، میں کچھ گھبرایا کہ کہیں سارا معاملہ کھٹائی میں نہ پڑجائے میں نے فوراً چالاکی سے کام لیتے ہوئے اونچی آواز میں اشلوک پڑھنے شروع کردئیے کہ ہوسکتا ہے میری آواز سن کر سپہ سالار خود خیمے سے باہر آجائے۔ اس پر محافظ دستے نے تلواریں کھینچ لیں اور مجھ پر حملہ کرنے ہی والے تھے کہ سپہ سالار رگھوناتھ سہائے کے خیمے کا پردہ ہٹا اور اس کے اندر سے ایک نازک اندام حسینہ گہرے رنگ کے لباس میں ہیرے جواہرات پہنے باہر نکلی۔ اس کے دائیں بائیں دو آدمی بھی تھے جنہوں نے بسنتی رنگ کے بڑے بڑے پگڑ باندھ رکھے تھے ان میں سے ایک کے ہاتھ میں وچتروینا اور دوسرے کی بغل میں مردنگم تھی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی رقاصہ ہے۔
اس نے وہیں سے ہاتھ بلند کیا اور کہا’’ٹھہرو ایک جوگی کی جیوہتیا نہ کرو۔‘‘
سپاہی وہیں رک گئے۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ عورت سپہ سالار کی منظور نظر ہے وہ بڑے نازو ادا سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی ’’سوامی جی! یہ جھگڑا کیا ہے؟‘‘
جب میں نے اسے اصل بات بتائی تو وہ بولی
’’مہاراج! سینا پتی رگھوناتھ جی ناستک ہیں۔ میں انہیں جانتی ہوں۔ وہ دیوی دیوتاؤں پر یقین نہیں رکھتے وہ ایک سپاہی ہیں اور ہندوستان سے مسلمان کے لشکریوں کو باہر نکالنا ہی ان کی زندگی کا آدرس ہے آپ ان سے نہیں مل سکتے۔‘‘
میرے ذہن نے مجھے ایک اور بات سمجھائی۔ اس عورت کی مدد سے میں سپہ سالار کے دربار میں پہنچ سکتا تھا۔ میں نے اس کی طرف گھور کر دیکھا اور کہا’’بچہ ہم تیرے ماتھے پر دیوی سرسوتی کا پرکاش دیکھ رہے ہیں۔ کیا تم ہمیں بھوجن نہیں کھلاؤ گی۔‘‘
دیوی سرسوتی علم اور موسیقی کی دیوی ہے۔ میری زبان سے اپنے بارے میں یہ کلمات سن کر وہ عورت بہت ہی خوش ہوئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی’’مہاراج! میرے خیمے میں پدھاریئے۔ آپ کو بھوجن کھلاؤں گی تو دیوتا مجھ پر مہربان ہوں گے۔‘‘
دستہ خاص کے محافظوں نے سکھ کا سانپ لیا کہ بلا ٹل گئی۔ میں اس عورت کے ساتھ اس کے خیمے میں آگیا۔ اس نے میرے ہاتھوں کو صندل اور گنگا جل سے دھلایا۔ میرے آگے سونے کے برتنوں میں پھل اور چاول رکھے اور خود پنکھا لے کر میرے سامنے بیٹھ گئی۔(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 117 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں