اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 117

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 117

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں چاول کھانے لگا۔ ساتھ ساتھ اس کو ویدوں کے اشلوک اور بالمیکی کی رامائن کا پاٹھ کرکے بھی سناتا جاتا تھا کہ اس پر میرا رعب اچھی طرح جم جائے۔ اس کی زبانی معلوم ہوا کہ اس کا نام مادھو ی ہے اور وہ رقاصہ نہیں بلکہ گائیکہ ہے اور گاتے ہوئے کبھی کبھی ترنگ میں کرنرت کرنے لگتی ہے۔ اس کی باتوں میں مجھے ایک بات اپنے مطلب کی نظر آئی جس پر میں چونکا۔ گائیکہ مادھوی چونکہ مجھ سے بہت مرعوب ہوچکی تھی اس نے مجھے بتایا کہ وہ رگھوناتھ سہائے سے محبت کرتی ہے۔ رگھوناتھ سہائے بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ دونوں آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں مگر رگھوناتھ سنہائے کی ایک بیوی بھی ہے جس کا نام چالکا ہے۔ رگھوناتھ سہائے اگرچہ ناستک ہے۔ دیوی دیوتاؤں کو نہیں مانتا مگر اسے یقین ہوگیا ہے کہ اس کی بیوی چالکا ایک ناگن ہے۔ اور اگر اس نے اسے چھوڑ کر مجھ سے شادی کرلی تو وہ ناگن بن کر آٗے گی اور اسے ڈس کر ہلاک کر ڈالے گی۔
’’اس کی بیوی چالکا نے ایک ناگن بھی پال رکھی ہے جس کو وہ روزانہ دودھ اور شہد پلاتی ہے، رگھوناتھ سہائے کو وہم ہے کہ یہ ناگن اس کی بیوی کی اصل ماں ہے اس نے مجھ سے کئی بار کہا ہے کہ مادھوی میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ تم سے بیاہ رچانا چاہتا ہوں لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو چالکا اور اس کی ماں مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گی۔‘‘

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 116 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مجھے اپنا راستہ صاف ہوتا ہوا نظر آرہا تھا۔ میں نے مادھوی سے کہا’’مادھوی تو نے میری بڑی خدمت کی ہے۔ مجھے بھوجن کھلایا ہے۔ اب مجھ پر فرض ہو گیا ہے کہ تیری مدد کروں۔ سن دیوتا شنکر نے مجھے ہدایت دے کر بھیجا ہے کہ میں رگھوناتھ سہائے سے مل کر دیوی دیوتاؤں سے محبت کرنے اور ان کی پوجا کرنے کا پیغام پہنچاؤں اگر تو مجھ سے وعدہ کرے کہ مجھے رگھوناتھ سہائے کے پاس لے جائے گی تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی آسمانی دیوتاؤں کی دی ہوئی طاقت سے تمہارے راستے سے چالکا اور اس کی ماں کو ہمیشہ کے لئے ہٹادوں گا۔‘‘
مادھوی کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں، کہنے لگی۔ ’’مہاراج! میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ کو رگھوناتھ کے پاس لے چلوں گی پھر آپ اسے دیوتاؤں کا پیغام پہنچائیں۔ میں آپ کے بارے میں اسے ایسی اچھی باتیں کہوں گی کہ وہ خود آپ کو بلائے گا لیکن اس کے بعد آپ کو اس کی بیوی اور ناگن ماں کو ختم کردینا ہوگا۔‘‘ میں نے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں۔ 
وہ بولی’’کیا چالکا اور اس کی ناگن ماں میرے محبوب کو مجھ سے شادی کرنے کے بعد ڈس کر مار تو نہیں ڈالے گی؟‘‘
میں نے پرزور الفاظ میں اسے یقین دلایا کہ چالکا اور اس کی ناگن ماں کو اس طرح جلاکر بھسم کردیا جائے گا کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں کسی روپ میں بھی واپس نہیں آسکیں گی۔
مادھوی کو میں نے اپنی ان دیکھی طاقت کا یقین دلادیا تو وہ رات کو جب رگھوناتھ سہائے کے خیمے میں گئی تو اس نے اسے میرے بارے میں بڑھ چڑھ کر بتایا اور یہ بھی کہہ دیا کہ میرے پاس ایسی کرامت ہے جس کی مدد سے میں چالکا اور اس کی ناگن ماں سے اس کو ہمیشہ کے لئے نجات دلاسکتا ہوں۔ رگھوناتھ سہائے نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ مادھوی مجھے دوسرے روز اس کے پاس لے گئی۔
میں ایک خاص جوگیوں جیسے انداز کے ساتھ اس کے شاہی خیمے میں داخل ہوا۔ میں پہلی بار رگھوناتھ سہائے کو دیکھ رہا تھا وہ ایک کالا کلوٹا، ادھیڑ عمر کا گول مٹول مرہٹہ تھا جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں مگر آنکھیں سانپ کی آنکھوں کی طرح سرخ اور مقناطیسی تھیں۔ ان آنکھوں سے سفاکی اور بے دردی جھلک رہی تھی وہ بھگوٹے کپڑوں میں تھا جس پر گوٹہ کناری لگا تھا۔ اس کے سر پہ چٹیا تھی جس کو مروڑ کر ٹانڈ کے بیچ میں جمادیا گیا تھا۔ اس کے ماتھے پر زعفران کا ٹیکا تھا۔ دو ہٹے کٹے سیاہ فاہم مرہٹہ محافظ تلواریں لئے اس کے دائیں بائیں کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ احتراماً اٹھ کھڑا ہوا مگر چونکہ وہ ناستک تھا اس لئے اس نے مجھے ہاتھ جوڑ کر پرنام کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ مادھوی میرے ساتھ تھی۔
میں نے ہندو لشکر کے اس سب سے بڑے سپہ سالار کو غور سے دیکھا اور پھر ایک چوکی پر بیٹھ گیا۔ مادھوی ایک طرف قالین پر جاکر بیٹھ گئی۔ رگھوناتھ سہائے اپنی مونچھوں کے کنارے کو مروڑ رہا تھا اور میری طرف گہری مشکوک نگاہوں سے تک رہا تھا۔ خیمے میں ایک عجیب قسم کی دہشت بھری خاموشی طاری تھی۔ میں نے محسوس کیا یہ اس مرہٹہ سردار کی سفاک شخصیت کی دہشت تھی۔ وہ واقعی ایک حیرت انگیز مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا لیکن مجھ پر اس مقناطیسی طلسم کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا تھا میں بڑے مقدس انداز میں بیٹھا اشلوک پڑھتا رہا اور میں نے یوں ظاہر کیا جیسے مجھ پر اس کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
رگھوناتھ سہائے نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ اشارے کے ساتھ ہی اس کے دونوں محافظ جھکے اور خیمے سے باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد پھر وہی سناٹا جھاگیا۔ اس سناٹے کو رگھوناتھ سہائے نے دل میں خراش ڈال دینے والی آواز سے توڑا۔
’’جوگی! مجھے مادھوی نے کہا ہے کہ تم اپنے کسی دیوتا شنکر کا میرے لئے کوئی پیغام لے کر آئے ہو کیا ہے وہ پیغام۔‘‘
میں نے کہا ’’مہاراج! دیوتا شیو شنکر آپ کو ہندو جاتی ہندو دھرم کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے کہا ہے کہ آپ دیوی دیوتاؤں پر یقین رکھیں ان کی پوجا پاٹھ کریں اور اپنے خیمے میں ان کے بھجن گایاکریں۔‘‘
رگھوناتھ سہائے کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آئی کہنے لگا۔’’جوگی اگر تمہارے ساتھ مادھوی نہ ہوتی تو اس خیمے میں داخل ہوتے ہی میں خود اپنے ہاتھ سے تمہارا سر قلم کردیتا۔ اب تم آگئے ہو اور مادھوی نے تمہاری سفارش کی ہے تو میں تمہاری جان بخشی کرتاہوں لیکن آئندہ اگر تم نے میرے آگے کسی دیوی دیوتا کا نام لیا تو میں مادھوی کی بھی پرواہ نہیں کروں گا۔‘‘
مادھوی کا چہرہ اترساگیا۔ میں نے دل میں سوچا کہ آدمی بڑا ٹیڑھا ہے میری مشکل یہ تھی کہ میں صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس کی فوج کے باقی تین سالاروں کو بھی قتل کرنا چاہتا تھا اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ کون ہیں او رکس کس خیمے میں رہتے ہیں۔ میں نے اسے سنکسرت کا ایک اشلوک پڑھ کر سنایا۔
’’بھگوان تم سے خوش ہیں کیونکہ تم ہند ودھرم کو مسلمان ملیچھوں کی تباہی سے بچارہے ہو اس لئے میں شیو شنکر کے حکم سے تمہیں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘
رگھوناتھ سہائے اپنی ننگی تلوار کے پھل پر انگلی چلاتے ہوئے بولا۔
’’تم اپنے دیوتاؤں سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ میری جگہ پر آکر مسلمانوں کے لشکر کو تباہ و برباد کردیں۔‘‘
میں نے کہا ’’مہاراج انہوں نے یہ کام تمہیں سونپا ہے وہ تمہارے ساتھ ہیں اور میدان میں تمہاری مدد کریں گے۔‘‘
رگھوناتھ سہائے نے ناراضگی سے ہاتھ ایک طرف کو جھٹکا اور غرایا’’میدان جنگ میں سوائے میری فوجوں کے کوئی میری مدد نہیں کرے گا۔‘‘
پھر اس نے اٹھ کر دو گلاسوں میں شربت ڈالا۔ ایک گلاس مادھوی کو دیا اور دوسرا میری طرف بڑھایا۔ میں نے کہا ’’مہاراج! جوگی مشروب نہیں پیا کرتے‘‘ وہ مسکرایا اور تخت کی مسند سے لگ کر خود ہی پینے لگا۔ اب میں اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا چاہتا تھا۔ میں نے بغیر کسی تمہید کے کہنا شروع کیا۔
’’عظیم سینا پتی! میں دیکھ رہا ہوں کہ مستقبل کے ایک عظیم الشان محل میں تم اپنی پسند کی محبوبہ کے ساتھ کنول کے پھولوں کے کنج میں بیٹھے مشروب سے دل بہلارہے ہو۔‘‘
رگھو ناتھ سہائے اپنی نیم وا آنکھوں سے مجھے دیکھ کر مسکرارہا تھا۔ میں نے کہا ’’مگر تمہارے راستے میں موت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘
وہ ایک دم یوں چونک پڑا جیسے اس نے اپنے قریب ہی پھن دار سانپ کو دیکھ لیا ہو۔ ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔‘‘
میں نے کہا ’’مہاراج! نراش نہ ہوں۔ موت سے میری مراد وہ ناگنیں ہیں جو آپ کے اور آپ کی محبوبہ مادھوی کے درمیان بیٹھی پھنکار رہی ہیں وہ اس جنم میں آپ کا ملاپ نہیں ہونے دیں گی۔‘‘
اب مادھوی آگے بڑھی۔ اس نے کہا’’مہاراج! سوامی جی بڑی کرنی والے ہیں انہوں نے بھی یہی کہا ہے کہ آپ کی بیوی چالکا اصل میں ایک ناگن ہے جس نے عورت کا روپ اختیار کررکھا ہے اور اس کے پاس جو ناگن ہے وہ اصل میں اس کی ماں ہے جس نے ناگن کا بھیس بدل رکھا ہے۔‘‘
رگھوناتھ سہائے ہمہ تن گوش ہوگیا تھا اور میری طر ف دیکھنے لگا۔ میں نے کہا’’مادھوی کا کہنا بجا ہے سینا پتی! ان دونوں ناگنوں نے آپ کے جیون کو نرک بنا رکھا ہے۔ جب تک یہ آپ کے درمیان پھنکارتی رہیں گی آپ پھولوں بھرے کمل کنج کے شاہی محلات تک نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘
رگھوناتھ سہائے ایک حقیقت پسند مرہٹہ سردار تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے وہم ہو گیا تھا کہ اس کی بیوی ناگن ہے اور اسے مادھوی سے پیار کرنے کے جرم میں ڈس لے گی۔ اس نے سرخ تکیہ اٹھا کر اپنے زانوں پر رکھا اور اس پر کہنی ٹکا کر میری طرف گھورتے ہوئے بولا’’کیا تم ثابت کرسکتے ہو کہ تم ایک کرنی والے جوگی ہو؟‘‘
میرے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی میں مسکرایا۔
’’عظیم سینا پتی! تم مجھ سے جیسا چاہو امتحان لے سکتے ہو۔ میں اپنی آسمانی طاقت ثابت کرنے کے لئے ہر آزمائش سے گزرنے کو تیار ہوں۔‘‘رگھوناتھ سہائے اپنی مونچھوں کو مروڑنے لگا۔ پھر اس نے مسند کے قریب ہی لٹکی ہوئی ریشمی ڈوری کو کھینچ دیا۔(جاری ہے )

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 118 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں