لاہور کو لاہور ہی رہنے دیں 

  لاہور کو لاہور ہی رہنے دیں 
  لاہور کو لاہور ہی رہنے دیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

متحدہ عرب امارات کے امیر شیخ محمد بن راشد المکتوم کا ایک بیان سوشل میڈیا پر آج کل وائرل ہے جس میں انہوں نے کہا ہے اگر کہیں عورت دن اور رات کے کسی بھی وقت بے خوف و خطر گھر سے باہر گھوم پھر سکتی ہے تو وہ متحدہ عرب امارات ہے۔ اس سے پہلے ان کا یہ واقعہ بھی سامنے آیا کہ سڑک پر ٹریفک کی خلاف ورزی پر انہیں سارجنٹ نے روک کا چالان کر دیا۔اس پر انہوں نے کہا تھا دبئی کو اگر کسی نے دبئی بنایا ہے تو وہ یہی سارجنٹ ہے۔ میں کل سے یہ سوچ رہا ہوں ہماری ساری ترقیاں اپنی جگہ مگر ہم نے یا ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس نہج پر نہیں سوچا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ سنگ و خشت کے جہان آباد کرنے سے ترقی ہو جاتی ہے۔ ذرا سوچئے یہی متحدہ عرب امارات، یہی دبئی جو پانی، ترقی، شاہانہ زندگی اور جدید سہولتوں کی وجہ سے دنیا کے بڑے ملکوں اور شہروں کو مات دے رہے ہیں، امن و امان کے حوالے سے مسائل کا شکار ہوتے، قانون وہاں بھی بے اثر ہوتا اور طاقتور قانون شکنی کا رجحان رکھتے،لٹیرے، ڈاکو، چور، قاتل بلاخوف دندناتے پھرتے، سٹریٹ کرائمز بے تحاشہ ہوتے، پولیس رشوت لے کر مجرموں کو چھوڑ دیتی اور عدالتوں میں انصاف نہ ملتا تو کیا پھر بھی دبئی اسی طرح کا دبئی ہوتا، کیا متحدہ عرب امارات میں اس طرح کروڑوں افراد ہر سال سیاحت کے لئے آتے؟ نہیں صاحب نہیں،ہماری بدامنی، دہشت گردی اور لاقانونیت ہمارے سیاحتی مقامات کو چاٹ گئی ہے۔ دنیا کے خوبصورت ترین قدرتی مقامات رکھنے کے باوجود ہمارے ہاں سارا سال اتنے سیاح بھی نہیں آتے جتنے دبئی میں روزانہ آ جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ گرمیوں میں کوئٹہ جاتے تھے کہ وہ بہت پُرفضا شہر تھا، اب کوئٹہ کا نام لیں تو بندہ سوچتا رہ جاتا ہے، وہاں پہنچے کیسے اورپہنچ جائے تو وہاں سیاحت کیسے کرے۔ ایک تو ہوتی ہے دہشت گردی، بدقسمتی سے ہمیں اس کا سامنا ہے، لیکن ایک ہے لاقانونیت اور ریاست رٹ کی ناکامی۔ ہمارے پاکستانی جب متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو سب سے بڑے قانون پسند بن جاتے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے بھیگی بلی کی طرح قانون پر عمل کرتے ہیں، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ سڑکوں پر بھی ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہیں اور کسی شرطے یعنی پولیس والے کو دیکھ کر بڑھک نہیں مارتے کہ تم مجھے جانتے نہیں میں کون ہوں اور میرا کون سا چاچا ماما ملک میں کیا لگا ہوا ہے۔جہاں امیر امارات ٹریفک سارجنٹ کی اتھارٹی کو تسلیم کرے وہاں کسی دوسرے ایرے غیرے کی کیا اوقات رہ جاتی ہے کہ قانون شکنی کا سوچے۔

اصل میں یہ باتیں مجھے آج اس لئے بھی کرنا پڑ رہی ہیں کہ کل میں نے دھرمپورہ انڈر پاس پر ہونے والا واقعہ دیکھا ہے، جس نے ہماری خرابیوں اور لاقانونیت والی ذہنیت کو بری طرح آشکار کر دیا ہے۔ اس واقعہ کی وڈیو غالباً اب تک پورا پاکستان دیکھ چکا ہے جس میں پانچ چھ کالی گاڑیوں کے قافلے کو جس میں تین کالے ڈالے تھے۔ لاہور کی اس مصروف سڑک پر دندناتے دیکھا جا سکتا ہے۔ میں خود اس تجربے سے بارہا گزر چکا ہوں کہ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والا کوئی شخص جب اپنے مسلح گارڈوں کے ہمراہ مصروف شاہراہ پر آتا ہے تو اس کے ان حواریوں کی خواہش ہوتی ہے آگے جانے والا اپنی گاڑی اپنے سر پر اُٹھا کے ایک سائیڈ پر ہو جائے۔ کبھی پیچھے سے شدید ہارن، کبھی ہیڈ لائٹس اور کبھی گارڈز اپنی گاڑی آگے لا کر راستہ دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جام ٹریفک کی وجہ سے اتنی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ آگے والا کسی کو راستہ دے سکے۔ ایسے میں یہ قانون شکنی کے بادشاہ وہی کرتے ہیں جو انہوں نے کل لاہور میں کیا،  سفید گاڑی پر جانے والے نوجوان کو ویگوڈالے میں سوار گارڈز نے گالیاں دیں۔ ایک نے فائرتک مار دیا جو خوش قسمتی سے گاڑی پر لگا۔ لاہور کا نوجوان دلیر تھا، جان کی پروا کئے بغیر باہر نکلا، جس پر گارڈز نے تشدد کیا۔ وہ بھی ڈٹا رہا اور اس نے ایک گارڈ کو جس نے فائرنگ کی تھی دبوچ لیا۔ موبائل کھیرے چل گئے، شور شرابہ ہوا تو گارڈز اور وہ شخصیت موقع سے فرار ہو گئے۔ یہ وہ موقع تھا جب مجھے خیال آیا کہ لاہور میں کم از کم اتنا قانون کا خوف تو موجود ہے کہ بڑے سے بڑا طاقتور بھی پکڑے جانے کے خوف سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہی واقعہ اگر پنجاب کے کسی دور افتادہ شہر راجن پور، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان یا لیہ میں ہوا ہوتا تو اس نوجوان کی وہ حالت ہونی تھی کہ شاید زندہ بھی نہ رہتا، لیکن یہ لاہور میں ہوا، جو پنجاب کا دارالحکومت ہے اور جہاں صوبے کے تمام وسائل استعمال کرکے اسے محفوظ بنانے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں لاہور گیا۔ مجھے جوہر ٹاؤن سے ایک تقریب میں ڈی ایچ اے 6جانا تھا۔ میں جہاں اپنے برادرِ نسبت کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے تلقین کی کہ زیادہ رات گئے تک وہاں نہ رہنا، لاہور بھی کراچی بنتا جا رہا ہے۔ سٹریٹ کرائمز بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس جملے سے مجھے یوں لگا کہ لاہوریوں کی یہ خواہش ہے لاہور، لاہور  ہی رہے، کراچی نہ بنے۔

لاہور کے اس واقعہ کے بعد بہت سے سوال اٹھے ہیں۔ وی وی آئی پی کلچر تو ہمارا ایک پرانا مرض ہے ہی، تاہم وہ حکمران شخصیات کے لئے اگر ہوتا ہے تو اس کے لئے پورا ایک روٹ لگایا جاتا ہے۔ اس میں پولیس پوری طرح شامل ہوتی ہے اور ٹریفک کو روک کر کسی وی وی آئی پی شخصیت کو گزارا جاتا ہے۔ اس میں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ سڑک پر جا رہے ہوں اور پیچھے سے کسی مقتدر شخصیت کا قافلہ آ جائے۔ یہ کام چھوٹے افسروں، جھوٹی شان و شوکت اورامارات کا مظاہرہ کرنے والوں کا ہوتا ہے کہ وہ اپنے مسلح گارڈز کے ہمراہ عام سڑک پر نکلتے ہیں اور ٹریفک قوانین کی پروا کئے بغیر ہر قیمت پر آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ مجھے لاہور کے ایک ذمہ دار افسر نے بتایا شہر میں ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ نئے نئے دولت مند بننے والوں نے از خود وی وی آئی پی پروٹوکول حاصل کر لیا ہے۔ وہ رینٹ اے کار سے ویگوڈالے لیتے ہیں گارڈز کسی کمپنی سے منگواتے ہیں اور شہر کی سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں۔ لاہور ٹریفک پولیس کو شاید اجازت نہیں کہ وہ انہیں روک سکے۔ لاہور کے اس واقعہ کے بعد کوئی ایسا ضابطہ بننا چاہیے کہ کسی کو دس دس مسلح گارڈز کے ہمراہ سڑک پر آنے کی اجازت نہ ہو۔یہ نودولتیئے اور اپنی جھوٹی امارت کے ذریعے سڑکوں پر خوف و ہراس پھیلانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -