”جشن ِافتخار عارف“ اور عباس تابش

      ”جشن ِافتخار عارف“ اور عباس تابش
      ”جشن ِافتخار عارف“ اور عباس تابش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  لاہور واقعی علمی ادبی،تہذیبی اور ثقافتی مرکز ہے۔ یہاں ہونے والی تقریبات کی گونج پوری اردو دنیا میں سنائی دیتی ہے۔”عشق آباد“ کے زیر زیراہتمام ”جشن افتخار عارف“ نے سارے شہر کی ادبی فضا کو چارچا ند لگا دئیے اور ملک بھر سے نمائندہ شعراء، ادیب، دانشور، صحافی اور حکومتی اداروں سے تعلق رکھنے و الی قابل ذکر شخصیات اس بے مثال سرگرمی کا حصہ بن گئیں۔بلاشبہ یہ تین روزہ ادبی کانفرنس ایک ثقافتی میلہ کی شکل اختیار کر گئی جس نے ادبی تقریبات کی روایت میں ایک خوشگوار اور قابل ذکر اضافہ کیا ہے۔جناب  افتخار عارف  بلا شبہ افتخار ادب ہیں کہ ان کے تخلیقی کینوس پر ابھرنے والے رنگ اپنے اندر مقناطیسی کشش رکھتے ہیں۔ ادب کے نمائندہ منظرنامے پر بہت کم ایسی  شخصیات ہوں گی جنہوں نے اپنی دیگر شاعری کے ساتھ ساتھ مذہبی شاعری کا تواز ن بھی بھرپور طریقے سے قائم رکھا۔ ورنہ غزل میں اعتبار بن جائے تو بڑے بڑے شعراء اپنی عقیدتوں کی بیاض کو ابھرنے نہیں دیتے۔ جناب افتخار عارف کی غزل جہاں ہمارے عہد کی نمائندہ اور معتبر آواز ہے وہاں ان کی نعت، مناقب اور سلام بھی پوری توانائی کے ساتھ آسمان ادب پر اپنی لو دے رہی ہیں۔”عشق آباد“ نے اس ادبی جشن کو ان کے نام منسوب کر کے پورے عہد کا قرض اتارا ہے۔ ”عشق آباد“ کے روح رواں جناب عباس تابش کے شعر کا جادو پوری دنیا کے  اردو  حلقوں میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

دنیا بھر میں کہیں بھی اردو کی نمائندہ شعری تقریب ان کی شرکت کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ روایت اور جدت کے امتزاج سے پروان چڑھتے ہوئے ان کے اپنے تخلیقی لہجے نے اپنا الگ رنگ جمایا ہے اور یہی خوبی شعر او رشاعر کو ہجوم سے ممتاز کرتی ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ اچھا شاعر اچھا منتظم نہیں ہوتا اور اسی طرح ضروری نہیں کہ اچھا متظم اچھا شاعر بھی ہو لیکن جناب عباس تابش کے شعری کمال کاتو زمانہ معترف تھا مگر اب انہوں نے ”جشن جون ایلیا“ اور”جشن افتخار عارف“ کا کامیاب انعقاد کر کے اپنی انتظامی صلاحیتوں کا بھی اعتراف کروایا ہے۔ یہ تین روزہ تقریبات اپنے اندر ادب، ثقافت، تاریخ اور روایت کے تمام تر ذائقے لیے ہوئے تھیں جنہوں نے تشنگان علم و  ادب کو خوب سیراب کیا۔ انتظامی اور ثقافتی  صلاحیتوں  سے مالا مال جناب کامرا ن لاشاری کا نام ہی کسی پراجیکٹ کی کامیابی کی ضمانت  سمجھا جاتا ہے۔انھوں نے لاہور کے تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے اور اس  کے تہذیبی و ثقافتی حسن کو بحال کرنے کے حوالے سے بہت زاویوں پر کام کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ اس جشن کے اہتمام کے لئے لاہور کے قلعے کا انتخاب اور اس کے لیے تمام تر انتظامی سپورٹ فراہم کرنے پر وہ پہلے سے بھی زیادہ اہلیان ادب کے دلوں کے قریب ہو گئے ہیں۔ اس اہم تاریخی،ثقافتی اور تہذیبی مرکز پر بے شمار ایسے ادیب شاعر ہو ں گے جو پہلی بار نہیں تو کم از کم عرصہ دراز کے بعدآئے ہوں گے۔

یہ قلعہ لاہور کی آنکھ ہے جہاں آکر تاریخ کے روزنوں میں جھانکا جا سکتا ہے اور کامران لاشاری صاحب نے تخلیق کاروں کو ان منظروں میں دیکھنے کا بہترین موقع فراہم کیا۔”جشن افتخار عارف“ کی تقریبات کی موضوعاتی تقسیم کو دیکھیں تو آپ کو حیرت ہو گی کہ اس ادبی میلے نے کتنی جہتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا۔ تین روزہ تقریبات کو مختلف سیشنز کو دیوان عام، مکاتب خانہ اور شاہی باورچی خانہ میں تقسیم کیا گیا تھا۔”دیوان عام“ میں  پہلے دن چار سیشنز ہوئے جن میں افتتاحی اجلاس کے بعد   رقص درویش پیش کیا گیا جس میں افتخار عارف کی "رقص میں ہے" ردیف پر کہی گئی غزل تحت اللفظ  پر فنکاروں نے پرفارم کیا۔اس کے بعد نسل نو مشاعرہ ہوا اور آخر میں صوفی نائٹ کے عنوان سے  ندیم عباس لونے والا نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ دوسرے دن اوپن مائیک، پاکستا ن میں اداروں کی نجکاری، محمل و جرس، اکیسوی صدی کی عورت، عارفہ سیدہ کے ساتھ، عطا الحق قاسمی کے ساتھ، صباحت عاصم واسطی کے ساتھ، معاشرے کی تہذیب کل اور آج، کلیات ڈاکٹر زاہد امیر تقریب پذیرائی اور محفل مشاعرہ برپا ہوئی۔دوسرے دن ہی مکاتب خانہ پر، فیض شناسی، عشق نامہ ایک نشست، اکبر معصوم کی یاد میں، آئندگان شعری نشست، رئیس امروہی فن و شخصیت، مظہر محمود شیرانی کی ادبی خدمات، ادب کے فروغ میں ٹیکنالوجی کا کردار پر بہت خوبصورت سیشنز ہوئے۔دوسرے دن ہی "شاہی باروچی خانہ"پر تقریب پذیرائی "دعاؤں بھرے دالان" پرانے لاہور کی داستان" کسوٹی کا سفر،افتخار عارف کی مذہبی شاعری، افتخار عارف کے تراجم، جوش ملیح آبادی پر ڈاکومنٹری، افتخار خوانی کے عنوانات کے تحت پروگرام ترتیب دیئے گئے تھے۔

تیسرے دن دیوا ن عام کے دالان میں  اوپن مائیک، قاسم علی شاہ کے ساتھ نشست، افتخا ر عارف کی نظمیں، بیٹھک، مذاکرہ"  مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا"، سہیل احمد کیساتھ نشست، منعقد ہوئی اور تیسرے دن ہی  مکاتب خانہ میں سلیم احمد شخصیت و فن، اکیسوی صدی کی نظم، تین کتابیں،  اردو کی نئی بستیاں، پاکستانی ناول اکیسوی صدی میں، کتاب شناسی اور ”شاہی باورچی خانہ“ پر  لاہور کی تاریخی عمارت، چند نئی آوازیں، اصغر ندیم سید کے ساتھ نشست، چٹھیاں، افتخار ادب، شارٹ فلم سیشن  اور اس کے بعد اختتامی نشست اور اختتامی مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت جناب افتخار عارف نے کی۔ بلا شبہ اس جشن نے لاہور کی ادبی فضا میں ایک گراں قدر اضافہ کیا ہے۔اپنے عہد کے بڑے لوگوں کی ان کی زندگی میں اعتراف اور ان کو سراہنے کی روایت کو مستحکم کیا ہے۔لاہور کے قلعے کی فضائیں تاریخ میں یہاں سجنے والی شعری محفلوں کی گواہ ہیں اور اس محفل نے ان  درودیوار کی آنکھوں کو  تروتازہ کر دیا ہے۔جناب عباس تابش ”عشق آباد“کی پوری ٹیم اور اس کی انتظامی سپورٹ پر جناب کامران لاشاری کوڈھیروں مبارک باد۔جاتے جاتے ہمارے عہد پر جناب ڈاکٹر خورشید رضوی کی پذیرائی بھی قرض ہے دیکھئے  اس کا قرعہ کس خوش نصیب کے نام نکلتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -