پاکستان میں جمہوریت کی راہ کی رکاوٹ کون؟؟

      پاکستان میں جمہوریت کی راہ کی رکاوٹ کون؟؟
      پاکستان میں جمہوریت کی راہ کی رکاوٹ کون؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  پاکستان کا معرض وجود میں آنا ایک جمہوری فیصلہ تھا جسے دو قومی نظریہ بھی کہا گیا یعنی برصغیر میں دو بڑے نظریات کے عوام تھے۔ ایک ہندو اور دوسرے مسلمان، مسلمانوں کی خواہش الگ وطن کی اس لیے تھی کہ آج کے مطابق لیول پلیئنگ فیلڈ کا مسئلہ تھا۔ سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ہندو اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو ملک کی قانون سازی کے کام سے بھی الگ رکھا جا سکتا تھا۔ اس لیے ہندوستان میں بننے والے قوانین بھی متعصبانہ ہوتے تھے۔ دراصل ہندو مذہب میں طبقاتی فرق ہے یعنی اس میں چھوٹی بڑی ذاتیات ہیں۔ برہمن اور اچھوت ذات کے ہندو بھی اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے تو دوسرے مذاہب کے عوام کو کیسے برابری مل سکتی تھی؟ مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی تحریک پر ہی پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ اور پاکستان کی تحریک کے قائد نے پاکستان کو ایک جمہوری ملک قرار دیا تھا۔ جسے یار لوگوں نے قرارداد مقاصد کی بنیاد پر کچھ گڈ مڈ بھی کر دیا جس سے ملک کو حقیقی جمہوریت سے محروم کیا گیا اور ملک کے اندر کبھی ملک خطرے میں اور کبھی اسلام خطرے میں کے بیانیے بنا کر عوام کی سوچ تقسیم کر دی گئی۔ کبھی خلافت کے نام پر تو کبھی نظام مصطفی کی تحریک چلا کر اور کبھی کسی نے امیر المومنین کا لباس پہننے کی کوشش میں پاکستانی عوام کو گمراہ کیا، یہ سب ڈرامے ملک کو جمہوری نظام سے دور کرنے اور عوام کو اختیارات سے مرحوم رکھنے کی مذموم کوششوں کا حصہ تھے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ نہ اسلام کو کبھی زوال ہو سکتا ہے۔ نہ کوئی طاقت پاکستان کو نقصان پہنچا سکتی تھی جب تک ہم خود اپنے ملک سے مخلص ہوتے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت سے خطرہ کس کو ہے اور جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ کون ہے؟ کسی بھی ملک کے عوام ہی جمہور ہوتے ہیں اور ان کی رائے سے بنائے گئے نظام کو ہی جمہوری نظام کہا جاتا ہے۔ اس نظام کی ابتدا تو اڑھائی ہزار سال قبل مسیح موجودہ یونان کی اس وقت کی دو ریاستوں "سپارٹا اور ایتھنز " سے ہوئی تھی۔ لیکن ہمارے خیال سے اللہ تعالٰی کے اس فرمان کہ "جیسی قوم ہوگی ایسے اس کے راہنما یا حکمران ہوں گے " کا اشارہ بھی جمہوریت کی طرف ہے۔ اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ نے بیت کا طریقہ اپنا کر بھی جمہوریت کا اعلان کیا تھا۔ اور آج کی دنیا میں وہی ممالک کامیابی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں جن میں جمہوری نظام مضبوط ہے اور جہاں جہاں طالع آزماؤں نے عوام کو بے اختیار رکھا وہ ممالک جنگ و جدل کا شکار ہوئے یا پھر بدعنوانیوں نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا، پاکستان میں کہنے کو گاہے جمہوری حکومتیں قائم ہوتی رہیں اور جمہور پرجوش اپنے نمائندے منتخب بھی کرتے رہے مگر عوام کبھی بھی جمہوری نظام سے مستفید نہیں ہو سکے اور ملکی فیصلوں سے عوام کو ہمیشہ الگ رکھا گیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جہاں عوام اور ملک کے فیصلے ہوتے ہیں عوام کو ان ایوانوں کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیا جاتا اور عوام تک درست اطلاعات کے دروازے بھی مکمل بند رہے ہیں۔ بعض آمروں اور طالع آزماؤں کا کہنا یہ رہا ہے کہ پاکستان میں مغرب کی طرز پر جمہوری نظام اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ پاکستانی عوام میں وہ شعوری بلندی یا پختگی نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے مذہبی راہنماؤں کو بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے جو جمہوریت کو اسلام مخالف نظام ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یعنی وہ ایک عام آدمی اور اعلی اور مخصوص تعلیم کے حامل شخص کی رائے کو برابری کے درجے پر رکھنے کو غلط کہتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو عوام کے فیصلوں میں ہمیشہ شعور نظر آیا ہے اور اعلی تعلیم یافتہ اور بڑے عہدوں پر براجمان لوگوں کے فیصلوں سے ہی اس ملک کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچے ہیں۔ بعض سیاستدانوں کا یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ ہمارے عوام اپنے سیاستدانوں کا ساتھ نہیں دیتے اگر پاکستان کی 76 سالہ تاریخ کو دیکھا جائے تو عوام نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ مخالف رویہ رکھا اور ہر جمہوری راہنما کی حمایت میں کھڑے ہوئے،

یہ الگ بات کہ ہر سیاسی راہنما نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے جمہوری رویے سے انحراف کرتے ہوئے عوامی مفاد کی بجائے سامراجی قوتوں کے ساتھ ہاتھ جوڑے، متحدہ پاکستان سے لے کر اب تک مغربی یا موجودہ پاکستان کے بیشتر سیاستدانوں نے عوام کے ساتھ بے وفائی اور بے اعتنائی کے رویے روا رکھے لیکن جب جب انہیں دھکے دے کر ایوانوں سے نکالا گیا تو انہوں نے عوام کو آواز دی اور عوام پھر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے، ماضی قریب میں ہم نے دیکھا ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف تمام استبدادی حربوں کے باوجود عوام نے پارٹی کا ساتھ دیا اور میاں نواز شریف کو جب نکالا گیا تو عوام نے والہانہ ان کا ساتھ دیا اور آج عمران خان کی تمام کمزوریوں کو نظر انداز کر کے عوام کی بھاری اکثریت جیل میں بند خان صاحب کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن ہمارے سیاستدان ہر بار جب مشکل سے نکل جاتے ہیں تو پھر اسٹیبلشمنٹ اور غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر ناچنے لگتے ہیں یا یوں کہنا درست ہوگا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام صرف ووٹ دے سکتے ہیں اقتدار کا حصول دوسری قوتوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں مگر وہ ناداں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان قوتوں نے ان کو کبھی اقتدار دیا ہے نہ دیں گی وہ تو آپ کو وقتی طور پر کچھ حصے دار بناتے ہیں اور آپ جب بھی اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرتے ہو تو زناٹے دار طمانچہ آپ کے منہ پر پڑتا ہے یا اسٹیک آپ کی ٹانگوں پر لگتی ہے اور آپ کچھ دن بعد سڑک پر ہوتے ہیں اس کے بعد پھر جیل یا جلاوطن ہوتے ہیں۔ تو پھر تمہیں کون سی چیز عوام پر اعتبار کرنے سے روکتی ہے۔ آزمائش کر لیں اگر آج بھی سارے سیاستدان آپس میں اس بات پر اتفاق کر لیں کہ ہم فیصلے عوام پر چھوڑتے ہیں اور جسے عوام منتخب کریں اس کو متعینہ مدت تک حکومتی نظام چلانے دیتے ہیں تو جمہوریت مضبوط ہو جائے گی اور سیاستدان اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کامیاب ہوں گے۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ عوام نہیں سیاستدان ہیں یا سیاستدانوں کے مالکان ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -