ہمارے دیہاتوں کے مسائل(3)
دیہاتوں کے اندر ہم لوگوں میں جو نئی چیزیں در آئی ہیں وہ سب منفی یا نقصان دہ ہیں،اچھی اشیاء کا دروازہ ہم نے بند کر رکھا ہے،پچھلی قسط ہم نے شوگر کی بیماری کے ذکر پر ختم کی تھی شوگر ہماری سستی، کاہلی، غفلت اور لاعلمی سے آتی ہے اگر ہم اپنی جسمانی سرگرمیوں کو مثبت بنائیں، کھانوں میں پرہیز اور پرکھ رکھیں اور ٹینشن لینے کی بجائے ٹینشن کا سبب بننے والے اعمال کو درست کر لیں تو اس بیماری سے بچ سکتے ہیں اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی درجنوں دوسری بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں شوگر کے بعد بلڈ پریشر کی بیماری عام ہے،بلڈ پریشر کی بیماری کو بھی جسمانی ورزش سے روکا جا سکتا ہے۔روزانہ 45 منٹ کی واک سے بلڈ کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے کئی لوگ بواسیر کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں بواسیر قبض سے جنم لیتی ہے، اگر آپ موسمی پھل کھاتے ہیں اور اپنی ٹوائلٹ کی روٹین درست رکھتے ہیں تو آپ کو قبض کی شکایت نہیں ہو سکتی دیہاتوں میں اکثر لوگ بسا اوقات رفع حاجت یا پیشاب کو کئی گھنٹے روک لیتے ہیں وجہ اس کی مصروفیت بھی ہو سکتی ہے اور سستی بھی، لیکن جسم ایک روٹین مانگتا ہے اگر آپ روزانہ وقت پر کھانا کھائیں، وقت یا حاجت پر ٹوائلٹ جاتے ہیں اور اپنی خوراک میں پھل شامل رکھتے ہیں تو قبض اور قبض سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے 90فیصد تک محفوظ رہ سکتے ہیں،دل کی بیماریوں کی وجہ بھی جسمانی سستی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ غلط کھانے ہیں۔ہمارے دیہاتوں کے اندر کھانے پکانے کے جو تیل استعمال ہوتے ہیں وہ اگر سو فیصد نہیں تو کم از کم 90فیصد ناقص یا جعلی ہوتے ہیں،کسی بندے نے کبھی تحقیق ہی نہیں کی کہ جو تیل ہم گھر لے کر آتے ہیں وہ کہاں اور کیسے بنتا ہے.ویسے بھی تری جتنی زیادہ کھائی جاتی ہے اتنا ہی دل کی بیماریوں کا خدشہ بڑھتا ہے،اسی طرح جعلی ٹھنڈے مشروبات اور برف والا پانی بھی دل کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے،انڈوں کی بہت زیادہ زردی کا استعمال بھی کولیسٹرول میں اضافہ کرتا ہے،تمباکو نوشی بالخصوص سگریٹ دل کو بیمار کرنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں، ان تمام چیزوں سے پرہیز ناممکن نہیں ہے لیکن ہمارے لوگ اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے،کچھ مذہبی سوچ بھی کام کرتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں مرنا اسی دن ہے جو دن مقرر ہے جوڑوں کے درد کا سبب بھی سستی اور جسمانی ورزش نہ کرنا ہوتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ گندہ پانی بھی جوڑوں کے درد اور ہیپاٹائٹس کی بیماری کا باعث بنتا ہے،ہمارے لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں لیکن اگر پانی کو ابال کر صاف کر لیا جائے تو کئی بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
جہاں تک کینسر جیسی انتہائی خطرناک بیماری کا تعلق ہے،یہ سب سے زیادہ پلاسٹک کے استعمال، گندی یا غلط خوراک کھانے سے اور اپنی فضا کو آلودہ کرنے کی وجہ سے پھیل رہی ہے، جہاں جہاں زیر زمین پانی کی سطح اوپر ہے وہاں پانی بھی آلودہ ہو چکا ہے،اسی طرح جو لوگ کھانے کے بعد اپنے دانت اور منہ درست طریقے سے صاف نہیں کرتے، منہ کے اندر کھانے کے ذرات رہ کر زہر بنتے ہیں،گلے میں کھانے اور پینے کے نشان رہتے ہیں،پیٹ کے اندر کئی گندی اشیا بیکٹیریا پیدا کرتی ہیں، یہ سب کینسر کا سبب بنتے ہیں، باہر سے گندے تیل میں تلی ہوئی چیزیں کھانا بھی کینسر کا سبب بن سکتا ہے،اگر آپ کے جسم میں کہیں بھی کوئی چوٹ کا نشان یا زخم زیادہ دیر تک رہے تو وہ بھی ایک وجہ بن سکتا ہے،کینسر سے بچنے کے لیے اپنی خوراک میں ایسی اشیاء شامل کریں جو قوت مدافعت کو بڑھاتی ہیں، اخروٹ اور دوسرے خشک میوہ جات، پالک، ٹماٹر، ہری مرچیں، پیاز، انجیر وغیرہ، باقی ڈاکٹر بہتر جانتے ہیں کہ کینسر کیسے ہوتا ہے،کچھ بیماریاں جینز میں یا وراثتی بھی ہوتی ہیں۔
المختصر یہ کہ ہمیں صحت کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا چاہئیں اور غفلت چھوڑ کر اپنی جسمانی سرگرمیوں کو صحت کے اصولوں کے مطابق استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اب آتے ہیں دوسری مصیبتوں کی طرف جو دیہاتی لوگوں کے لیے ٹینشن کا باعث بنتی ہیں اور انہیں مالی طور پر کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیپریشن کا شکار بھی کرتی ہیں،وہ فضول کے جھگڑے ہیں،جن میں سب سے زیادہ گھریلو جھگڑے جیسے ساس اور بہو کے درمیان بلا وجہ کی دشمنی حالانکہ یہ رشتہ ایسا ہوتا ہے جس میں کسی بھی طرح کی رقابت نہیں ہوتی ہے،اگر سوچا جائے تو ساس اور بہو میں کبھی لڑائی ہونی ہی نہیں چاہیے،کیونکہ ایک لڑکے کی ماں بڑے چاؤ سے اپنے بیٹے کی شادی کرتی ہے،خود لڑکی کو پسند کرتی اور چوم چوم بیٹی کہتی ہے،پھر جب بارات جاتی ہے تو لڑکی والے دلہا، دلہا کے رشتہ داروں اور باراتیوں پر پھولوں کی بارش کرتے ہیں، ان کی اعلی اور لذیذ کھانوں سے تواضع کرنے کے بعد جہیز کے ساتھ بیٹی ان کے حوالے کر دیتے ہیں تو اگر لڑکے والے صرف پھولوں کی قیمت یاد رکھیں تو کبھی جھگڑا نہیں ہو سکتا،لیکن ہوتا کیا ہے،چند ہی دنوں میں ساس اپنی بہو میں نقائص ڈھونڈ لیتی ہے یہ سوچے بغیر کہ بہو کسی دوسرے گھر سے آئی ہے، اس کی پرورش کہیں اور سے اور ہمارے سے مختلف طریقوں سے ہوئی ہے لہذا ہمیں انتظار کرنا ہو گا اور آہستہ آہستہ پیار کے ساتھ اسے اپنے گھر کے ماحول میں ڈھالنا ہوگا،وہ تو فوری طور پر اسے ایسا دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح وہ چاہتے ہیں،وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ دنیا کے دو انسانوں کا ذہن کبھی سو فیصد ایک جیسا نہیں ہو سکتا ہے،کیونکہ اللہ نے ہر انسان کو ذہن دیا ہے اور اس کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز بھی اپنا ہی ہوتا ہے،یہ دنیا اس طرح چل رہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے اور ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور تمام تر اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرنا اور فیصلوں میں سب کی رائے لینے کے بعد اکثریتی سوچ پر مشتمل فیصلے کرنا۔(جاری ہے)