مادرِ ملت اور تحریک پاکستان میں اُن کا کردار

  مادرِ ملت اور تحریک پاکستان میں اُن کا کردار
  مادرِ ملت اور تحریک پاکستان میں اُن کا کردار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 تحریک قیام پاکستان کے سلسلے میں بانیء پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کا کردار ایک زمانے پر عیاں ہے۔ قائداعظم کی بے مثال قیادت میں ایک ایسی قوم اپنا وقاردوبارہ حاصل کر سکی جو مدتوں سے اپنا تشخص کھو چکی تھی لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح قائداعظمؒ کی تحریکِ حصولِ پاکستان کے لئے جدوجہد میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ قائداعظم کی اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد سے محترمہ فاطمہ جناح سائے کی طرح قائداعظمؒ کے ساتھ ساتھ رہیں۔ وہ ان کی ہمدم و دمساز و ہمراز تھیں۔ قائداعظمؒ سے سترہ برس چھوٹی فاطمہ جناح نے قائداعظمؒ کی نگہداشت ایک بہن کی طرح نہیں بلکہ ماں کی طرح کی،وہ قائداعظمؒ کے آرام کا ہر طرح خیال رکھتیں۔ ان کے لباس ان کی بودوباش، ان کے رہن سہن، ان کے معمولاتِ شب و روز میں محترمہ فاطمہ جناح کو پورا پورا دخل تھا۔ وہ قائداعظم کی سیاسی مشیر بھی تھیں۔ تحریک پاکستان میں انہوں نے شبانہ روز کام کیا، خواتین کو اکٹھا کیا، انہیں وہ قائداعظمؒ سے ملواتیں اور سیاسی شعور اجاگر کرتیں۔ خودماہر ڈینٹل سرجن تھیں مگر اپنی پریکٹس چھوڑ کر انہوں نے قائداعظمؒکو بھرپور وقت دینے کا فیصلہ کیا ان کی یہ اتنی بڑی قربانی تھی کہ قائداعظم نے اعتراف کیا کہ ”پاکستان کیا ہے“۔ ”فاطمہ جناح، میں خود اور میرا ٹائپ رائٹر“…… ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ اگر فاطمہ قدم قدم پر میرا ساتھ نہ دیتیں، میری رہنمائی نہ کرتیں تو حصولِ پاکستان ناممکن ہوتا۔ ایک نئی اسلامی جمہوری مملکت کے قیام کے بعد جبکہ زندگی نے وفا نہ کی اور قائداعظمؒ جلد ہی ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے تو یہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ہی تھیں جنہوں نے پاکستانی قوم کا مورال بلند کئے رکھا، وہ ہر اہم موقع پر اپنے پیغام کے ذریعے ایک نئے ملک کے باسیوں کا حوصلہ بڑھاتیں، انہیں نئے وطن کے استحکام کے لئے کام کرنے کی تلقین کرتیں اور بالآخر جب ایک ایسا موقع آیاکہ جمہوری اقدار پامال ہونے لگیں۔ ملک مارشل لاء کی زد میں آ گیا تو آمریت سے نجات دلانے اور جمہوریت بحال کرنے کے لئے وہ خود میدانِ عمل میں آئیں۔ انہوں نے لالٹین کا نشان لے کر شمع جمہوریت کو فروزاں رکھنے کے لئے اپنے وقت کے بڑے مقتدر آمر کے خلاف الیکشن لڑا اگرچہ بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت وہ الیکشن جیت نہ سکیں اور نتائج برسرِ اقتدار سربراہ کے حق میں ظاہر کئے گئے مگر لوگوں کو ایسا حوصلہ ملا کہ آخر کار آمریت کا بُت پاش پاش ہوا اورجمہوریت بحال ہو کر رہی۔ مادرِ ملت کا مثبت کردار ملک کے قیام اور بعد میں استحکام ملک کے لئے بھی مثال رہا۔ وہ ایک نڈر خاتون تھیں، قول کی پکی تھیں، عزم کی حوصلے کی پیکر تھیں۔ انتھک کام کرنے والی تھیں۔ وقت کی پابند تھیں۔ قائداعظم کی طرح حساب کتاب کی کھری تھیں۔ قوم کے پیسے کو امانت سمجھتیں۔ اسراف کے فضول خرچی کے خلاف تھیں۔

قائداعظمؒ کے اپنے الفاظ میں ”وہ امید کی کرن اور مستقبل کی روشنی تھیں“…… قائداعظم اپنے آپ کو اور محترمہ فاطمہ جناح کو ”فل کونسل“ کہتے تھے اور اپنے بیانات شائع کرنے سے پہلے ”فل کونسل“ کا مشورہ ضروری سمجھتے تھے۔

تحریک پاکستان کے دوران مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے مسلم ویمن سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ جلسوں میں باقاعدگی سے شمولیت کی۔ تعلیم نسواں اور تعلیم بالغاں کے مراکز کا اجراء کیا۔ قائداعظمؒ کے مشن کو دیہاتوں اور شہروں میں پہنچانے کے لئے مسلسل دورے کئے۔1939ء کے بعد سے وہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی مستقل رکن رہیں۔ قائداعظمؒ کی وفات کے بعد پاکستان کے تمام صوبوں میں نظریہء پاکستان کی تشریح اور تعمیر وطن کے لئے دورے کئے!

مادرِ ملت نے 1929ء سے 1948ء تک یعنی مسلسل 19برس قائداعظمؒ کے گھر کی نگرانی اور انتظام سنبھالے رکھا انہوں نے قائداعظمؒ کے آخری لمحات میں جاں نثارانہ تیمارداری کا حق ادا کیا۔انہوں نے تمام زندگی قائداعظم کی ایک مخلص مشیر دوست،دمساز، قابلِ اعتماد ساتھی اور سیاسی دور میں صلاح کار کی حیثیت سے ساتھ دیا۔ قائداعظمؒ کی وفات کے بعد آئین پاکستان کی بلاتاخیر تیاری اور بالادستی کے لئے پُرزور بیانات دیئے۔ مہاجرین کی آباد کاری کے لئے بہت سی انجمنوں کی تشکیل اور سرپرستی کی۔ کشمیری مہاجرین کی دستگیری کی۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور کی بنیاد رکھی۔ نیشنل کمیٹی برائے شعبہء اطفال، اقوام متحدہ کی صدر رہیں، بے شمار طبی، سماجی اور تعلیمی اداروں کے دورے کئے اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے مفید مشورے دیئے۔ مادرِ ملت کی ذات خصوصیت سے خواتین کے لئے قابلِ تقلید سمجھی جاتی تھی۔ لیکن پوری قوم بھی ان کی آواز پر لبیک کہنے کو فرض سمجھتی تھی۔ انہوں نے قائداعظمؒ کی پہلی برسی پر عوام سے اپیل کی کہ پاکستان عظیم قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔ اب اس کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھنا آپ کا  فرض ہے۔ دنیا آپ کی حرکات و سکنات کو بغور دیکھ رہی ہے اور آپ کو ثابت کرنا ہے آپ اپنی ذمہ داری کو سنبھالنے کے اہل ہیں۔ غفلت، آزادی کی دشمن ہے اور آزادی کی سب سے بڑی قیمت دائمی طور پر بیدار اور چوکس رہنا ہے۔

1965ء میں جب بھارتی افواج نے پاکستانی علاقوں پر حملہ کیا تو انہوں نے عوام کے نام پیغام میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ پاکستانی عوام نہایت خندہ پیشانی اور پوری قوت کے ساتھ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا پوری پاکستانی قوم دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوائی دیوار بن گئی اور اتحادو یکجہتی کا ایسا عملی مظاہرہ کیا جو اب تاریخ کے صفحات کا حصہ ہے۔

غرض محترمہ فاطمہ جناح نے 1900ء سے لے کر 1948ء تک اپنے بھائی کا ساتھ دیا۔ قائد کی محبت اپنی بہن سے اور وہ اپنی قابل رشک بہن کو ”میری پیاری بہن“،میری ”عظیم بہن“ اور میری ”اچھی دوست بہن“ کہہ کر پکارتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح حق گو و مجاہدانہ عزم و ایثار کی پیکر محبتوں کی دیوی تھیں۔ خوش شکل،خوش گفتار، خوش اخلاق خاتون تھیں۔  انہوں نے اپنے آخری پیغام اپریل 1967ء میں عیدالاضحی کے موقع پر تین اہم مطالبات پیش کئے۔

1۔خود مختار پارلیمنٹ

2۔آزاد پریس

3۔آزاد عدلیہ اور ان مطالبات کے حصول تک پاکستانی قوم کو اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی تلقین کی۔ مختصریہ کہ تحریک و قیام پاکستان کے حوالے سے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے کردار کسی طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

مزید :

رائے -کالم -