سوتا جاگتا ضمیر

صدر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اہلِ قلم کی کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ ملتان سے سینئر اہلِ قلم کے ساتھ معروف صحافی عبدالطیف اخترمرحوم بھی میرے ساتھ تھے۔ افتتاحی تقریب کے بعد ہم منو بھائی سے ملے، جن سے نیاز مندی تھی۔ وہ ہمیں پنڈال میں موجود طنز و مزاح کے بڑے شاعر سید ضمیر جعفری کے پاس لے گئے۔ منو بھائی جو بذلہ سنجی اور چٹکلے بازی میں ایک خاص رجحان رکھتے تھے، انہوں نے سید ضمیر جعفری سے کہا شاہ جی آپ سونے والا ضمیر ہیں یا جاگنے والا۔ سید ضمیر جعفری جو بذاتِ خود ایک شگفتہ مزاج رکھتے تھے، کہا میں دوغلا ضمیر ہوں، رات کو سوتا ہوں دن کو جاگتا ہوں۔ صبح جب سو کر اٹھتا ہوں سب گھر والوں کو پتہ چل جاتا ہے، ضمیر جاگ گیا ہے۔ رات کو جب خراٹے لے کر سوتا ہوں تو سمجھ جاتے ہیں ضمیر سو گیا ہے۔ ہمیں اور سید ضمیر جعفری کو بھی علم تھا منوبھائی نے کس تناظر میں یہ سوال پوچھا ہے، کیونکہ ان دنوں کئی سیاسی لیڈر وفاداریاں تبدیل کررہے تھے اور اس عمل کو ضمیر جاگنے کا نام دیا جا رہا تھا، لیکن سید ضمیر جعفری نے بڑی خوبصورت سے بات کو سنجیدگی کی طرف نہیں آنے دیا۔ لاہور میں ڈی آئی جی ایڈمن عمران کشور نے استفا دیا تو پھر یہ بحث چھڑ گئی کہ ان کا ضمیر جاگ گیا ہے۔انہوں نے ایک جذباتی روداد لکھ کر مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ اپنی بہت سی خوبیاں گنوائیں اور بہت سے کارنامے بھی بیان کئے۔ یہ بھی کہا کہ محکمہ پولیس کو انہوں نے اپنی زندگی کا قیمتی حصہ دیا ہے، لیکن اب وہ اس باب کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کا استعفا وائرل ہوا تو مختلف چہ میگوئیاں ہونے لگیں، جن میں ایک یہ بھی تھی کہ ڈی آئی جی عمران کشور کا ضمیر جاگ گیا ہے اور وہ اب غیر قانونی احکامات ماننے کو تیار نہیں جبکہ پی ٹی آئی نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور وڈیوز لگا لگا کے یہ ثابت کیا عمران کشور نے زمان پارک میں بدترین تشدد کیا، بار بار آپریشن کرکے نئی تاریخ رقم کی، اس وقت ان کا ضمیر کیوں نہیں جاگا۔ یہ رائے بھی سامنے آئی کہ عمران کشور کا ضمیر نہیں جاگا بلکہ انہیں دوسرے بیچ میٹس کے ساتھ ترقی نہیں دی، اس لئے مستعفی ہوئے ہیں۔ خیر یہ کوئی پہلی مثال نہیں کہ نوکری چھوڑتے وقت کسی نے ایک جذباتی فضا بنائی ہو، ایسے بہت سے قصے اور واقعات ہمارے ہاں گاہے بہ گاہے، سامنے آتے رہتے ہیں۔ راولپنڈی کے سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ کے ضمیر جاگنے کی کہانی تو پوری قوم نے دیکھی۔ انہوں نے تو باقاعدہ کیمرے کے سامنے کہا ان کا ضمیر بے چین ہے اس لئے وہ یہ انکشاف کررہے ہیں 8فروری کے انتخابات میں بڑی دھاندلی ہوئی ہے۔ ہارنے والوں کو جتوایا گیا ہے۔ وہ اپنا عہدہ چھوڑ رہے ہیں کیونکہ ان کے ضمیر کا بوجھ انہیں سونے نہیں دیتا۔ اس انکشاف کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا اور اب تک کچھ پتہ نہیں وہ کہاں ہیں۔ ضمیر اب تک جاگ رہا ہے یا سو گیا ہے۔ دوسروں کی طرح ان کا ضمیر بھی اس وقت جاگا جب کھیل ختم ہو چکا تھا۔ اس وقت نہیں جاگا جب بقول ان کے دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور نتائج تبدیل کرائے جا رہے تھے۔ اس وقت جاگتا تو شاید قوم کا کچھ بھلا ہو جاتا، جب چڑیاں کھیت چگ گئیں تو وہ ہڑ بڑا کے اٹھے اور سنسنی خیز انکشافات سے سنسنی پھیلا دی۔ پاکستان میں ضمیر جاگنے کی بیماری نے بھی اسی طرح تباہی مچائی ہے جس طرح کرونا نے مچائی تھی۔ ایسے ایسے لوگوں کا ایسے مواقع پر ضمیر جاگتے دیکھا ہے جب انہیں شرم سے ڈوب مرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں نے بھی ضمیر جاگنے کی کمک استعمال کی ہے۔ کروڑوں روپے کے فوائد لے کر اپنا سودا کرنے والے بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ ضمیر کی آواز پر یہ سب کر رہے ہیں۔ سید ضمیر جعفری تو ایک بڑے کھرے اور سچے انسان تھے۔ انہوں نے تسلیم کرلیا تھا کہ ضمیر جاگتا ہے تو سوتا بھی ہے مگر یہاں کسی میں اتنی اخلاقی جرائت نہیں ہوتی کہ تسلیم کر سکے اس کا ضمیر بعض وجوہات کے باعث سو گیا تھا۔ کسی افسر کا ضمیر اس وقت تک نہیں جاگتا جب تک اس کے ذاتی مفاد پر زد نہیں پڑتی۔ اعلیٰ پوسٹنگ ملتی رہے تو ضمیر لسی پی کر سویا رہتا ہے، جو چاہے کرالو، جس مرضی کو اٹھوالو، پٹوالو مگر جونہی اچھی پوسٹنگ سے کھڈے لائن پوسٹنگ ہوئی ضمیر کچوکے لگانا شروع کر دیتا ہے۔ بہت سے تو ایسے ہوتے ہیں جن کا ضمیر پوری نوکری کے دوران سویا رہتا ہے، ہر ناجائز کام کرتے ہیں، ہر ناجائز حکم مانتے ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن جاتے ہیں، اچھی پوسٹنگ اور ترقی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں، مگر جونہی ریٹائر ہوتے ہیں ان کا ضمیر اس کا کے کی طرح جاگ اٹھتا ہے، جسے ماں ساری رات مار مار کے سلائے رکھتی ہے۔ ہمارے استاد اور سینئر شاعر ڈاکٹر عرش صدیقی کہا کرتے تھے، ہمارے معاشرے میں ضمیر ایک ایسا ڈھکوسلا ہے جسے غلط کاموں کے لئے بطور آڑ استعمال کیا جاتا ہے ہمارے ایک پروفیسر دوست کہا کرتے ہیں جو لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے وہ سب سے زیادہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ان کا ضمیر کسی غلط کام کی اجازت نہیں دیتا۔ جو جتنا بڑا رشوت خور ہوگا وہ اتنا ہی بڑا رشوت کے خلاف مبلغ بنے گا۔ ہم نے تو ایسے دیدہ دلیر بھی دیکھے ہیں کہ انہوں نے اپنی کرسی کے پیچھے دیوار پر یہ لکھوا رکھا ہوتا ہے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں اور وہ روزانہ نجانے کتنے کواس فارمولے کے تحت جہنم میں پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ میں نے ایک محفل میں اپنا یہ شعر سنایا۔
ہر چند مشکلات میں گزری ہے زندگی
لیکن کبھی ضمیر کا سود انہیں کیا
بعد میں وہاں موجود ایک بے تکلف دوست نے کہا آپ کے پاس ایسا ہے کیا کہ جس کا آپ سودا کر سکیں۔ ضمیر بذات خود تو کوئی چیز نہیں۔ یہ تو اختیار، طاقت اور جھوٹی انا کے نشے کا نام ہے۔ آپ کے پاس کون سا اختیار یا طاقت ہے جسے لوگ خریدنا چاہیں گے۔ بے بس اور بے اختیار آدمی لاکھ دعوے کرتا رہے میں ضمیر کا سودا نہیں کروں گا، اس کا ضمیر خریدنا ہی کون چاہتا ہے۔ ضمیر کی بولی تو ان لوگوں کے لئے لگتی ہے جن کے پاس بڑا عہدہ، بڑا اختیار اور بڑی کرسی ہوتی ہے۔ وہ اگر ناانصافی کرنے کے لئے ضمیر بیچنا چاہیں تو ہزاروں خریدار مل جاتے ہیں مگر تلخ حقیقت یہی ہے کہ سب سے زیادہ ضمیر فروشی اس طبقے کی منڈی میں ہوتی ہے۔ ان کی بات کو جھٹلانا ممکن نہیں تھا۔ ہمارا یہ رونا تو بہت پرانا ہے کہ رشوت نے ہمارے نظام کو زہر آلود کر دیا ہے۔ کوئی کام اس کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس زہر کو ختم کرنے کے لئے بڑے بڑے ادارے بنائے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔