فن نقابت…… چند بنیادی باتیں 

 فن نقابت…… چند بنیادی باتیں 
 فن نقابت…… چند بنیادی باتیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 نقابت ایک مشکل فن ہے جس میں آپ کو بیک وقت صاحب علم، صاحب مطالعہ، سخن فہم  اورشعری استعداد کا حامل ہونا چاہئے۔ یہ تمام صلاحیتیں خون جگر مانگتی ہیں، مسلسل انہماک کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر علم کا راستہ ہے جس پر چلنا کم ہمت لوگوں کا کام نہیں۔علم اللہ کا نور ہے اور یہ اسے سہل پسندی  سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ علم کی اپنی وجاہت اور وقار اس قدر بلند ہے کہ یہ نخرے رکھنے والوں کے قریب پھٹکتا بھی نہیں  اور دست بستہ اور خاک نشین ہونے والوں کو بلند بختی سے محروم بھی نہیں رہنے دیتا۔ دانے کو گل و گلزار ہونے کے لئے خاک میں حجرہ نشین ہونا پڑتا ہے اور ہم ہوا میں شاخ لہرا کر اس کو  پھولوں سے لادنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ اگر آپ کو خود کسی وجہ سے حصول علم کا موقع میسر نہ آسکے صاحبان علم کی صحبت ضرور اختیار کریں۔ خود مطالعے کی سہولت میسر نہیں ہے تو صاحب مطالعہ لوگوں کے پاس بیٹھیے،خود شاعر نہیں ہیں تو شعرا کے درمیان اٹھیے بیٹھیے تا کہ آپ میں کم ازکم  شعر فہمی پیدا ہوسکے۔ پچھلے دنوں ممتاز نقیب عابد حسین خیال قادری نے مجھے بھی   ایک تربیتی ورکشاپ میں گفتگو کے لئے مدعو کیا جس میں  لاہور کے ساتھ ساتھ مختلف شہروں سے آئے ہوئے نوجوانوں سے شرکت کی۔اس طرح کی ورکشاپس کا اہتمام پچھلے دنوں    برادرم تسلیم احمد صابری اور صفدر علی محسن نے بھی کیا جو اس شعبے  کے تربیتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے بہت خوش آئند پیش رفت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دیگر شعبوں کی طرح   مذہبی سٹیج  سے تعلق رکھنے والی اصناف یعنی نعت خوانی یا نظامت کے لئے تربیت کا کوئی باقاعدہ انتظام موجود نہیں ہے اور یہ ایک خود رو پودے کی طرح  اپنی مدد آپ کے تحت  خدا داد صلاحیتوں سے ہی پروان چڑھتا ہے اور پھر اللہ اس شعبے میں نام بنانے والوں میں سے کچھ لوگوں کو منتخب فرماتا ہے جو اس عمل خیر کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر نئے لوگوں کی  تربیت کا بیڑا اٹھاتے ہیں، جس دور میں ہم نے نعت خوانی کا آغاز کیا اس وقت ناظم محفل کا کردار اختصار اور جامعیت پر مشتمل ہوتا تھا جس میں وہ پڑھ کے جانے والے اور بعد میں آنے والے کے درمیان ایک شگفتگی اور دلپذیری کا رنگ پیدا کرنے کا سبب بنتا تھا۔رفتہ رفتہ اس شعبے میں خاطر خواہ تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔اب اس کے اندر اتنی چیزیں ایک ساتھ جمع ہو گئی ہیں کہ اس کے لئے اب نظامت کے علاوہ کوئی اور عنوان تجویز کیا جانا چاہئے کہ اس میں نظامت، خطابت،شعریت، جذباتیت، موسیقیت، نغمیت، نرگسیت   اورساتھ گروپ کی جمعیت تک ایک ساتھ چلنے لگی ہے۔پہلے نقبا کے ہاں بنیادی چیز ٹائم مینجمنٹ تھی۔ نہ وہ خود زیادہ وقت لیتے تھے نہ ہی پڑھنے والے۔ اور ایک رات میں بہت سے لوگ باآسانی پڑھ بھی لیتے اور سونے کا وقت بھی بچ جاتا۔ محفل کے ختم ہونے میں رات کا تیسرا پہر شروع ہونے کی نوبت بہت کم ہی آتی تھی۔ موجودہ مزاج نظامت کا سرسری جائزہ لیں تو آج کل اس میں اختلافی مذہبی موضوعات اور مسلکی مباحث کو حد درجہ شامل کر لیا گیا ہے جو سراسر صحت مندانہ اور مہذب وتیرہ  ہر گزنہیں ہے۔ ہماری محافل میلاد میں ذکر ِ  صاحب نعت  دن بدن کم ہوکر محرم الحرام کی مجالس کا رنگ زیادہ غالب دکھائی دینے لگا ہے۔

اہل ِ بیت اطہار خصوصاً سید کائنات کے ذکر،ان کی شان کے حوالے سے پڑھے جانے والے اشعار اور اس میں اپنایا جانا والا لہجہ مودب کم اور پرجوش  و جذباتیب سے معمورزیادہ ہوتا جا رہا ہے جس میں الفاظ کے انتخاب اور اس کی ادائیگی  پر  بلاشبہ بہت احتیاط کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کی جانی چاہئے۔محفل میں حاضرین کے جذبات سے کھیلنے کی روش بھی بہت تکلیف دہ ہے اور اس فضا میں معاملہ حاضرین کی تضحیک تک چلا جاتا ہے جس میں نعت خوان، خطباء اور نقباء برابر کے شریک ہیں۔یہ کہنا کہ  جو مدینے جانا چاہتا ہے وہ ہاتھ کھڑا کرے، جو اہل ِ بیت سے محبت رکھتا ہے وہ ہاتھوں کو بلند کرے، جو حسینی ہے بس وہ بولے باقی چپ رہیں جیسے بے  شمار بے سروپا اور بے مقصد جملو ں سے خود کو روکنے کی ضرورت ہے۔ نظامت کے فن میں کمال کے لئے شاعری کا انتخاب اور شعر پڑھنے کا سلیقہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہر موقع کی مناسبت سے سب کے ایام بھی ذہنوں بھی رکھیں اور ان کے حوالے سے اشعار بھی محافل میں پڑھے جانے چاہئیں۔اس حوالے سے ایک اور بات بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ نقباء  پروگرام کے موضوع کی مناسبت سے  خود کوئی مطالعہ کرنے کی بجائے مختلف شعراء کو میسج کر دیتے ہیں کہ اس موضوع پر قطعات لکھ دیں جو سراسر آپ کے اور اس شاعر کے بھی  منصب کے منافی عمل ہے۔ محافل کی نظامت اور میڈیا پر میزبانی میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے کہ اجتماع میں آپ کو اپنی مرضی کا مجمع میسر ہے اور کیمرے کے سامنے کہنے کو تو آپ اکیلے بیٹھے ہیں لیکن بیک وقت آپ لاکھوں لوگوں سے مخاطب ہیں جن کا مسلک، نظریہ، سوچ، زاویہئ نگاہ اور یہاں تک کہ مذہب بھی مختلف ہوسکتا ہے۔یہاں نہ تو آپ کو وقت کی آزادی میسر ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی کے حاضرین سے مخاطب ہونے کی سہولت۔یہاں محدود وقت میں آپ کو جلدی سے کئی چیزوں کو سمیٹنا ہوتا ہے۔چینل پر بولا گیا کوئی جملہ کبھی آپ کے لئے اور کبھی پورے چینل کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔یہاں گفتگو میں روانی، تسلسل موضوع پر گرفت اور جملوں کی ترتیب اور ان کی تہذیب بہت اہمیت رکھتی ہے۔اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو مختلف لوگوں کو سننے کی عادت بنانی چاہئے جن میں معین اختر، نعیم بخاری، آفتاب اقبال جیسے بہت سے نام ہیں۔شعر کی صحت اور ادائیگی کے لئے ضیاء محی الدین بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔اپنے شعبے سے ہٹ کر لوگوں کو سننے سے بھی کئی نئے زاوئیے انسانی ذہن پر اپنا نقش چھوڑتے ہیں۔ باقی باتیں اس ورکشاپ کے لیکچر میں سنی جا سکتی ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -