ڈاکٹر اے بی اشرف، اردو ادب کا آفتاب غروب ہو گیا

بروز ہفتہ15 مارچ کی شام پروفیسر نعیم اشرف نے زار و قطار روتے ہوئے اپنے والد اور استاد الاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف کے دنیا سے چلے جانے کی خبر سنائی تو ایک دھچکا سا لگا۔وہ میرے بھی استاد تھے اور اُن سے بہت عقیدت اور محبت کا تعلق نصف صدی پر محیط تھا۔اُن کی وفات کا سُن کر یادوں کا ایک ایسا جھکڑ چلا کہ پھر اُس نے رکنے کا نام نہیں لیا۔وفات کے وقت وہ انقرہ میں مقیم تھے، پچھلے چند دِنوں سے اُن کی طبیعت ناساز تھی،ابھی ایک ماہ پہلے15فروری کو اُن کے بچوں اور شاگردوں نے اُن کی 90سالہ سالگرہ منائی تھی۔وہ بہت زندہ دِل اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، ہم انہیں 90 سالہ جوان کہتے تھے۔ وہی خوش لباسی جو عہد ِ شباب میں اُن کی پہچان تھی، آخر دم تک اُن کی شخصیت کا حصہ بنی رہی،اُن کی وفات کا جونہی اُن کے بیٹے نعیم اشرف نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا، ہر طرف گویا صف ماتم بچھ گئی،اُن کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ چند منٹوں میں یہ خبر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی، ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دی کہ اردو ادب کا شجر سایہ دار دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ 15فروری 1935ء کو جنم لینے والی روح جب 15مارچ 2025ء کو اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹی تو اُس کے دامن میں اِس قدر زیادہ انسانی محبتیں تھیں، جو صرف خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہیں اب اُن کے چاہنے والے، شدت سے انتظار کر رہے ہیں کہ اُن کا جسد ِ خاکی ملتان پہنچے تاکہ ایک عالم،ایک فلسفی، ایک استاد اور محبتیں تقسیم کرنے والی ہستی کو دعاؤں اور عقیدتوں کے نذرانے پیش کر کے سپردِخاک کیا جائے،وفات کے وقت انقرہ میں اُن کے ساتھ چھوٹے بیٹے اسد خان،اُن کے بھائی اور بیٹی موجود تھیں، ڈاکٹر اے بی اشرف نے چالیس سال سے زائد کا عرصہ انقرہ ترکی میں گذارا،وہ ترکی کو اپنا دوسرا وطن کہتے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے خواب پورا کرنے کے لئے بڑی محنت کی۔ایم اے اردو کرنے کے بعد وہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے،جب بہاؤ الدین زکریا یو نیورسٹی بنی تو وہ اُس کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔اس شعبے کو پروان چڑھانے میں اُن کا کردار کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جلد ہی وہ شعبہ اردو کے سربراہ بن گئے۔جب میں نے1978ء میں داخلہ لیا تو اُس وقت ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا شعبے کے چیئرمین تھے جو ڈپیوٹیشن پر اورینٹل کالج لاہور سے ملتان آئے ہوئے تھے وہ جلد ہی واپس لوٹ گئے تو شعبے کی سربراہی ڈاکٹر اے بی اشرف کے سپرد ہوئی۔انہوں نے بڑی محنت اور قائدانہ صلاحیتوں سے اِس شعبہ کو تحقیق، تدریس اور ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے یونیورسٹی کی پہچان بنا دیا۔وہ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والے خلاق انسان تو تھے ہی تاہم بطور منتظم بھی انہوں نے یونیورسٹی میں اپنا لوہا منوایا۔اُس وقت کے وائس چانسلرز ڈاکٹر خیرات ابن رِسا،ڈاکٹر نذیر رومانی، ڈاکٹر الطاف حسن قریشی یونیورسٹی کے معاملات میں اُن سے رہنمائی حاصل کرتے۔ ڈاکٹر اے بی اشرف جسمانی لحاظ سے ہی بلند قامت نہیں تھے بلکہ علم و تدبر کے حوالے سے بھی اُن کی بلند قامتی مسلمہ تھی۔یہ وہ دور تھا جب نوزائیدہ یونیورسٹی اپنی شناخت کے عمل سے گزر رہی تھی اور شعبہ اردو اُس میں کلیدی کردار ادا کر رہا تھا۔مجھے یاد ہے ڈاکٹر اے بی اشرف سٹوڈنٹس افیئرز کے انچارج ہوتے تھے اور یونیورسٹی میں کوئی بھی مسئلہ پیدا ہوتا تو طالب علموں سے فوراً رابطہ کر کے معاملے کو سنبھال لیتے،اُن کی بات طالب علم ایسے مانتے تھے،جیسے بیٹے باپ کی مانتے ہیں۔اصل میں اُن کے لب و لہجے میں اِس قدر مٹھاس اور اپنائیت ہوتی کہ سامنے والا موم کی طرح پگھل جاتا۔یہ خوبی اُن کی زندگی کے آخری دِنوں تک برقرار رہی۔مجھے محمد افضل شیخ نے جو ایک انٹیلی جنسی ایجنسی کے اہم افسر ہیں، اور اَسی کی دہائی میں شعبہ اُردو کے طالب علم رہے۔ ڈاکٹر اے بی اشرف کے ایک واٹس اَپ پیغام کا کلپ بھیجا ہے۔محمد افضل شیخ کی دختر نیک اختر کی اِس سال کے آغاز میں شادی تھی،انہوں نے ڈاکٹر اے بی اشرف کو دعوت نامہ بھیجا تو اُس کے جواب میں انہوں نے اپنی پیرانہ سالی اور انقرہ میں ہو نے کی وجہ سے شرکت نہ کر سکنے کی اطلاع دینے کے لئے یہ پیغام بھیجا تھا۔اس پیغام کے ایک ایک لفظ سے اندازہ ہوتا ہے وہ اپنے شاگردوں کی خوشی کو کس طرح اپنے دِل سے محسوس کرتے تھے۔اُن کا یہ جملہ خاص طور پر دِل میں اُتر جانے والا تھا کہ میں وہ خوش قسمت ہوں، جس نے اپنے شاگردوں کی خوشیاں بھی دیکھیں اور اب اُن کی اولادوں کی خوشیاں بھی دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نے بار بار یہ کہا ایک استاد کے لئے اُس کے شاگرد بھی اپنے بچوں کی طرح ہوتے ہیں اور میرے بچے اِس وقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہ ایک مثال ہے تام ڈاکٹر اے بی اشرف کی شخصیت کے گداز پن، سراپا محبت اور سراپا عجز و انکسار ہونے کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
جہاں تک ڈاکٹر اے بی اشرف کے علمی کام کا تعلق ہے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے انہوں نے اردو زبان و ادب کے لئے گراں قدر ہی نہیں بلکہ بے مثال کام کیا ہے۔ انہوں نے30 سے زائد کتابیں لکھیں،تحقیق و تنقید شروع میں اُن کا میدان رہا۔پھر وہ تخلیق کی طرف آئے تو سفر ناموں اور خاکوں کے ذریعے انہوں نے اپنی نئی شناخت بنائی۔حکیم احمد شجاع پر اُن کی کتاب جو درحقیقت اُن کا تحقیقی مقالا ہے ایک بڑے حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ سٹیج ڈراموں کی تاریخ پر اُن کی کتاب ”اردو سٹیج ڈرامہ“ ایک مستند حوالہ ے جس میں رادھا/کنہیا سے انارکلی تک اردو سٹیج ڈرامے کی مکمل تاریخ موجود ہے۔اُن کا ایک اور بڑا کام ”میر،غالب اور اقبال“ کے نام سے چھپنے والی کتاب میں موجود ہے،جس میں اُردو کے تین تاریخ ساز شاعروں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔”مسائل ادب“ اُن کی ایک اور اہم کتاب ہے جس میں ایسے بہت سے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں،جو اُردو ادب کی تفہیم سے تعلق رکھتے ہیں۔”شاعروں اور افسانہ نگاروں کا مطالعہ“ بھی ایک ایسی کتاب ہے جس میں عصری و کلاسیکی ادب کی کئی گرہیں کھلتی ہیں۔ ڈاکٹر اے بی اشرف کے دو سفرنامے شائع ہوئے۔”ہوس کِرد تماشا“ اُن کا سفر نامہ یورپ ہے جو اپنے اسلوب اور واقعات و کرداروں کے حوالے سے بہت دلچسپی کا حامل ہے جبکہ دوسرا سفرنامہ ”ذوق دشت نوردی“ ہے۔اُن کے خاکوں کی کتاب ”کیسے کیسے لوگ“ ملتان کی اُن شخصیات سے روشناس کراتی ہے جو ملتان کا ایک بڑا حوالہ ہیں۔ ڈاکٹر اے بی اشرف تقریباً چار دہائی پیشتر انقرہ یونیورسٹی کی اردو چیئر کے لئے ترکی چلے گئے تھے اور پھر وہاں کے ہو رہے۔ اِس دوران انہوں نے ترکی میں اردو کی ترویج و ترقی کے لئے جو کام کیا وہ اب اہل ترکی کو ہمیشہ اُن کی یاد دلاتا رہے گا۔اُن کی خدمات پر ترک حکومت نے اُنہیں اعلیٰ اعزاز سے بھی نوازا۔اُن کی وفات سے اردو دنیا میں جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ واقعتا آسانی سے پُر ہوتا نظر نہیں آتا۔
٭٭٭٭٭