اپنے دل و ذہن میں یہ احساس و ادراک پیدا کر لیجیے کہ ماضی میں کسی قیمت پر بھی تبدیلی ممکن نہیں، ماضی گزر چکا، اب یہ واپس نہیں آئے گا
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:82
احساس شرمندگی وندامت سے نجات کے لیے چند تراکیب
اگرچہ آپ اپنے ماضی کے متعلق جو کچھ بھی محسوس کرتے ہیں لیکن اب اپنے دل و ذہن میں یہ احساس و ادراک پیدا کر لیجیے کہ ماضی ایک ایسی چیز ہے جس میں کسی قیمت پر بھی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اب ماضی گزر چکا! اب یہ واپس نہیں آئے گا اور اگر آپ ماضی کے متعلق کچھ شرمندگی اور ندامت محسوس کرتے بھی ہیں تو پھر بھی اس سے آپ کو کوئی فرق محسوس نہیں ہو گا۔ اس فقرے کو اپنے شعور پر پختہ طورپر نقش کر لیں: ”میرا احساس شرمندگی اور ندامت ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ مجھے ایک بہتر شخصیت عطا کر سکتا ہے۔“ آپ اپنے اس قسم کے اندازفکر کے ذریعے ماضی کی غلطیوں کے باعث احساس شرمندگی اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے درمیان واضح طو رپر امتیاز کر سکتے ہیں۔
خود سے استفادہ کیجیے کہ ماضی میں اپنائے گئے روئیے کے باعث شرمندگی اور ندامت محسوس کرنے کے ذریعے آپ اپنے موجودہ لمحے (حال) میں کس چیز سے محروم ہو رہے ہیں۔ آپ جس چیز سے محروم ہو رہے ہیں، اس کا جائزہ لینے کے ذریعے آپ احساس شرمندگی و ندامت میں مبتلا ہونے کی ضرورت سے بے نیا زہو جائیں گے۔
میرا ایک شادی شدہ دوست ایک اورخاتون کے ساتھ رومانی تعلقات میں گرفتار تھا، یہ صورتحال اس قسم کی شرمندگی اورندامت سے نجات حاصل کرنے کی ایک بہترین مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرا یہ دوست اپنے ان تعلقات کے باعث شرمندگی وندامت میں مبتلا تھا لیکن وہ پھر بھی ہر ہفتے اپنی بیوی کو بتائے بغیر اس خاتون سے ملنے جاتا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس کا یہ احساس شرمندگی قطعی طورپر بیکار اور بے مصرف ہے لیکن پھر بھی وہ نہ تو اپنی شادی شدہ زندگی سے لطف اندوز ہو ہا تھا اور نہ ہی وہ اپنے رومانی تعلقات میں بہتری لانے میں کامیاب رہا تھا۔ اب اس کے پاس دو راہیں تھیں۔ وہ یہ احساس کر سکتا تھا کہ وہ اپنے موجودہ لمحے (حال) کو شرمندگی و ندامت کے احساس کرنے میں استعمال کرنے میں آسانی محسو س کرتا تھا اور اسے اپنی شادی شدہ زندگی کا بغور جائزہ لینے کا عمل ایک مشکل اورپیچیدہ کام محسو س ہوتا تھا۔
یا پھر اس کے پاس دوسرا انتخاب یہ تھا کہ وہ اپنے روئیے کو تسلیم اور قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔ وہ یہ تسلیم کر سکتا تھا کہ اس کا یہ رویہ ایسا ہے جو بیشمار لوگوں کی نظروں میں ناپسندیدہ ہے۔ اب ان دونوں معاملات میں یا تو وہ احساس شرمندگ و ندامت کو ترک کرنے پر مبنی رویہ اپنا لیتا یا پھر یہ تسلیم کر لیتا کہ ا س کا رویہ غلط ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔