"گھروں سے نکالے گئے لوگ"
(احمد رضا پنجابی)
فروری 2018 کی رخصت ہوتی سردیوں کی دھوپ اچھی لگ رہی تھی، میں لاہور سے کچھ دنوں کے لئے اپنے گاؤں منچن آباد آیا ہوا تھا، میری آمد کا سن کر میرے بھانجے حسن رضا نے فون کال پہ مجھے بتایا کہ بابا نذر محمد سے بات ہو گئی ہے وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ بابا نذر محمد کی عمر سو سال کے لگ بھگ ہے وہ 1947 میں پنڈ جوتانوالی دب والی انڈیا سے اپنی زندگیاں بچا کر بہاولنگر پاکستان کی طرف نکل آئے تھے۔ یہاں دو گھر بدلنے کے بعد موضع خیر شاہ میں انہوں نے کچھ زمین خریدی اور اس کے بعد یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
میں ان کے گھر پہنچا تو بابا جی پہلے سے میرے انتظار میں تھے۔ ہم ایک ہی چارپائی پہ بیٹھ گئے۔ بابا نذر وٹو اس بات پہ حیران تھا کہ کوئی انجان شخص ان سے ان کے اس گاؤں بارے بات کرنا چاہتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا، جس گاؤں کی گلیوں میں وہ کھیلا اور کھیلتے کھیلتے جوان ہوا۔ وہ گاؤں جو صدیوں سے ان کے بڑوں کا گاؤں تھا مگر تقسیم کے جبر نے ان سے ان کا گاؤں چھین لیا۔
بابا جی اپنے بچپن کے دوستوں کو یاد کرتے رہے۔ آس پاس کے لوگوں بارے بتاتے رہے۔ ہندو دوستوں بارے انہیں یقین تھا کہ وہ اب بھی اسی گاؤں میں ہوں گے۔ ایک تالاب اور مسجد والی گلی کا ذکر زور سے کر رہے تھے۔ پردے ایک ایک کر کے سرک رہے تھے اور 70 سال پہلے کا دب والی انہیں پورے کا پورا نظر آ رہا تھا۔ میرے سوالوں کے درمیان ان کی آنکھوں کی نمی واضح ہوتی جا رہی تھی۔ میرے اس سوال پہ کہ آپ سب سے زیادہ عمر بھر کس کے لئے تڑپتے رہے تو انہوں نے بتایا "ماں کی قبر کو"
اس کے بعد ان کا بات کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
جہان خان جوئیہ فرید سر بیکانیر کا رہنے والا تھا۔ ان کا خاندان وہاں کھیتی باڑی کرتا تھا۔ بستی عدلانہ ضلع بہاولنگر میں بیٹھ کر وہ فرید سر کو یوں یاد کرتا ہے جیسے فرید سر انڈیا میں نہیں بستی عدلانہ کا پڑوسی گاؤں ہے۔ جہان خان کی عمر 16-17 سال تھی جب انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ میں ان کی کہانی ریکارڈ کرنے پہنچا تو انہیں سخت بخار تھا میں یہ جان کر واپس مڑنے ہی والا تھا کہ جہان خان کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ ان کے گھر کی باتیں کرنے کے دوران میں نے نوٹ کیا کہ ان کا بخار اتر چکا ہے اور میرے ہر سوال پہ وہ چارپائی سے سرک کے میرے اور پاس ہو جاتا۔ تقسیم کے وقت جن لوگوں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا انہیں ایک ایک بندے کا نام یاد تھا کسی راجے کا نام بڑے پیار سے لیتا تھا۔۔
بستی کھرکاں منڈی صادق گنج بہاولنگر کے چوہدری محمد علی کی عمر بھلے اس وقت 11-12 سال تھی مگر اس کے بچپن کی باتوں میں جوانی کی سی سنجیدگی تھی۔ انہیں فیروز والا کے ایک گاؤں سے دیس نکالا ملا تھا۔ بھلے پوری چوہدری آرائیں فیملی اکٹھی ہو گئی تھی مگر ان کی جانوں کو خطرہ تھا۔ ان سکھوں کو سدا اس خاندان نے دعاؤں میں یاد رکھا جنہوں نے ان کی حفاظت کر کے انہیں انڈیا کا بنایا بارڈر پار کرایا تھا۔ جونہی پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے انہیں صادقیہ اور فورڈ واہ کراس کرانے والے مسلمانوں نے لوٹ لیا۔
اوکاڑہ کے رانا اظہر سابق ایم پی اے ہیں۔ انہیں اوکاڑہ شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ کامیاب زندگی گزارنے والے نظریاتی اعتبار سے بڑے انسان ہیں۔ انہیں 1947 میں اپنا گاؤں ہریانہ ضلع ہوشیارپور چھوڑنا پڑا جب یہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ انہیں آج بھی اپنے اس سکول پہ فخر ہے جس نے کئی بڑے فٹ بالر انڈیا کو دیئے۔ سکول کے سبھی استادوں کے نام انہیں یوں یاد ہیں جیسے 47 کی تقسیم دو چار سال کی بات ہو۔ رانا صاحب میرے اس سوال پہ دھاڑیں مار کے رونے لگے جب میں نے اس وقت کی مذہبوں سے بالاتر ہو کر انسانی سانجھ بارے پوچھا۔ انہیں ایک ایک منظر یاد ہے کیسے کب کس نے ان کی پاکستان آنے میں مدد کی۔ اس گھر کے چھوڑنے بارے جب وہ بتاتے ہیں تو واضح محسوس ہوتا ہے گھر کے دروازے پہ کھڑے ہو کر اپنے بے گھر ہونے کا درد بیان کر رہے ہیں۔
بستی لکھویرا ضلع پاکپتن کی اماں ذیباں اپنے گاؤں میں بسنے والے ہندوؤں اور سکھوں بارے بتا کر غمزدہ ہو جاتی ہیں وہ کسی گوبند سنگھ کا ذکر آج بھی بھائی گوبند سنگھ کہہ کر کرتی ہیں۔ بھائی گوبند سنگھ کا گھرانہ ان کے بڑوں کے بہت قریب تھا ان کی ماں کا منہ بولا بھائی گوبند سنگھ تھا، زبان کا وہ تعلق اگلی نسل میں رشتوں کی صورت مںتقل ہوتا ہے۔ اماں ذیباں کی آنکھوں کے سامنے وہ نالہ بھی آ جاتا ہے جہاں اس کا ماموں گوبند سنگھ راہ چلتے گر گیا تھا اور یہ سب بچے اس پہ ہنس رہے تھے۔
بندر کور سمرا کی آنکھ بستی اکانوالا تحصیل منچن آباد ضلع بہاولنگر میں کھلی۔ ان کے باپ دادا علاقے کے بڑے زمینداروں میں سے تھے۔ اس وقت کا اکانوالی گاؤں اب بھی ان کی آنکھوں میں پورے کا پورا بستا ہے۔ 1947 میں ان کی عمر 8 سال تھی انہیں گنگا نگر انڈیا میں زمینیں الاٹ ہوئیں وہاں سے چند سالوں بعد یہ کینیڈا چلے گئے۔ مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب پنجابی پرچار ٹی وی پہ میری اپنے گاؤں بارے ویڈیو دیکھ کر انہوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ چار سال پہلے گاؤں والوں نے دیکھا کہ وہی 8 سالہ بچی گاؤں کے اس وقت کے گھروں، گلیوں اور جنج گھر کو ڈھونڈ رہی ہے۔ اپنے گاؤں والوں سے بات کرتے ہوئے جب ماں جی نے کہا کہ ہمارا گھر بس یہیں تھا اس کے بعد ہم نے صرف پردیس ہی دیکھا ہے تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔
یہ سچی کہانیاں ان پنجابیوں کی ہیں جنہیں ہجرت اور عمر بھر کے لئے بےگھری کا دکھ سہنا پڑا۔ اس جبری ہجرت میں ان کی مرضی شامل تھی نہ ان کی یہ خواہش کہ اس کے بعد ان کے لئے انڈیا اور پاکستان ان کی زندگیاں جیل بنا دیں۔ انڈیا اور پاکستان کا بننا ان کی زندگیوں سے دور کے دیسوں کی باتیں تھیں، انہیں 3 جون 1947 کے اعلان کا معلوم ہے نہ انہیں گھروں سے نکالنے کے لئے منظم قتل عام کا۔ 1947 سے 1948 تک اس جبری ہجرت میں دس لاکھ سے زیادہ پنجابی قتل کرا دیئے گئے اور ایک کروڑ سے زیادہ بےگھر۔ پنجابی عورتوں کی عزتوں کے تار تار ہونے کی کہانیاں راتوں کی نیندیں اڈا دیتی ہیں۔ بچوں کے ماؤں سے بچھڑے کی داستانیں دلوں کو اداس کر جاتی ہیں۔
یہ سب کجھ میری پارٹیشن کہانیوں کے کرداروں کے ساتھ بھی ہوا۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ واپس انڈیا جا کر اپنا گاؤں دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بچوں کی طرح روتے روتے بہلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ انہیں یوں لگتا ہے کہ منزل قریب آ رہی ہے پر انہیں کیا معلوم یہ وقتی بہلاوہ ہے انڈیا پاکستان کی آپسی دشمنیوں کی نذر ہونے والے پنجابیوں کے لئے یہ ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ دونوں ممالک دنیا کے دکھانے کو جھوٹے وعدے کرتے ہیں، معاہدے سائن کرتے ہیں مگر ان پر عمل کر کے ان بوڑھے پنجابیوں کو اپنے ان گھروں میں نہیں جانے دیتے جنہیں دیکھنے کی خواہش میں ان کی عمریں بیت چلیں۔ میرے ساتھ ایک بار یہ بھی ہوا کہ چوہدری عبدالقادر نامی ایک بابا جی کو جالندھر میں واٹس ایپ ویڈیو کے ذریعے ان کا گاؤں دکھانا تھا مگر جب وہاں پہنچا تو بابا جی کی سانسیں پوری ہو چکی تھیں۔
ایک لمحے کے لئے تصور کریں آپ کو زبردستی آپ کے گھر سے نکال دیا جاتا ہے آپ کو اپنی منزل کا معلوم نہیں اور جان کو خطرے کے ساتھ ساتھ گھر کی عورتوں کی عزتیں تار تار ہونے کا ڈر جان لیتا جاتا ہے تو آپ پہ کیا بیتے گی۔ یہی کچھ ان بزرگوں کے ساتھ بیتا ہے۔
یہ سب بزرگ اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں ایک نظر اپنی جنم بھومیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسا ہی پاکستانی پنجاب سے ہجرت کرنے والے ہندو اور سکھ بزرگ بھی چاہتے ہیں لیکن اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی حکومتیں رضامند نہیں۔ بندر کور سمرا کو اپنا گھر دیکھنا اس لئے نصیب ہوا کہ وہ کینیڈین نیشنل ہیں۔
کون سنے گا ان بزرگوں کی فریاد، انسانی حقوق پہ کام کرنے والے لوگ، آرگنائزیشز، اقوام متحدہ۔۔۔ کوئی تو ہو جو ان بند ہوتی آنکھوں میں حقیقت کے رنگ بھر دے کوئی تو ہو جو انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں کو سمجھا سکے کہ جن کا آپ نے سب کچھ بگاڑ دیا یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑنے والے۔۔ یہ چند سانسیں وہاں بتانا چاہتے ہیں جہاں سے نکلے انہیں 76 سال ہو گئے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں