’’عالمی عدالت انصاف کے بارے میں وہ باتیں جوآپ کو معلوم نہیں‘‘
ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف نے قرار دیا ہے کہ کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں آتا ہے اور عدالت کا فیصلہ آنے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔
آئیے عالمی عدالت انصاف کے بارے میں جانتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف میں کون جاسکتا ہے؟
عالمی عدالت انصاف ریاستوں کے درمیان ان جھگڑوں کا فیصلہ کرتی ہے۔ جنھیں ریاستیں عدالت انصاف میں لے جاتی ہیں۔اقوام متحدہ کی 192 ممبرریاستوں میں سے کوئی بھی ریاست عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرسکتی ہے۔ یہ عدالت صرف ریاستوں کے درمیان قضیوں کے فیصلے کرتی ہے ا فراد کے درمیان نہیں۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے
عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے ۔ اس کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی۔ ہم جانتے ہیں کہ ملکی عدالتوں کے فیصلوں پر متعلقہ ملک کی حکومت عمل دارآمد کرواتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا معاملہ مختلف ہے اس کے پاس قوت نافذہ نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک فریق عالمی عدالت کا فیصلہ ماننے سے انکار کردے تو دوسرے فریق کے پاس چارہ جوئی کا کیا راستہ بچتا ہے ا؟
اگر عالمی عدالت کا فیصلہ نہ مانا جائے؟
اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 94کے تحت اگر ایک فریق فیصلے پر عمل کرنے سے انکار کردے تو دوسرا فریق اس قضیے کو سلامتی کونسل میں لے جاسکتا ہے۔ سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ممبران اور دس غیر مستقل ممبران ہوتے ہیں۔ مستقل مبران میں امریکا، روس، برطانیہ ، فرانس اور چین شامل ہیں۔ مستقل ممبران کو ویٹو کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مستقبل ممبران میں سے کوئی ایک ملک بھی فیصلے کو ویٹو کردے تو قضیہ اسی طرح حل طلب رہے گا۔
حتمی فیصلے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟
عالمی عدالت انصاف میں کسی بھی حتمی فیصلہ آنے تک کئی مہینے یا سال لگ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن کو پھانسی نہ دے۔
عالمی عدالت انصاف کی ساکھ
عالمی عدالت انصاف بین الاقوامی قضیوں کو نمٹانے میں ناکام رہی ہے۔ بہت سے ممالک اس کے دائرہ اختیار ہی کو ماننے سے انکار کرتے آئے ہیں۔
1984ء میں وسطی امریکا کی ریاست نکاراگوا امریکا کے خلاف عالمی عدالت میں گئی تھی ۔ نکارا گوار کا الزام تھا کہ امریکا اس کے ملک میں باغیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ ریگن انتظامیہ نے عدالت کے دائرہ اختیار کو ماننے اور عدالتی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔عالمی عدالت انصاف نے نکاراگوا کے حق میں فیصلہ دیا۔ نکاراگوا عدالت کے اس فیصلے کو سلامتی کونسل میں لے گیا تھا لیکن وہاں امریکا نے اس کو ویٹو کردیا تھا۔
1977ء میں ارجینٹینا نے عدالت کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا تھا جس کے مطابق ایک جزیرے کا قبضہ چلی کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
1982ء میں دو جرمن شہری Karl-Heinz اور Walter Bernhardنے امریکہ میں چوری کی ایک واردات دوران ایک فرد کو قتل اور ایک کو شدید زخمی کردیا۔امریکی عدالت نے انھیں سزائے موت سنادی۔ جرمنی نے سزا پر عمل درآمد سے ایک ہفتے قبل عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرکے اس سزا کو رکوانے کے حق میں فیصلہ کروالیا۔ لیکن امریکا نے Karl-Heinz کو 1999ء سزائے موت دے دی اور Walter Bernhard کو جیل بھیج دیا۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔