ہاؤس آف ننھاز ……اعجاز+انور فیسٹیول
ہمارے پیارے دوست ملک ترکی کا یوم آزادی 29اکتوبر 2024ء کو بڑی شان و شوکت سے پی سی لاہور میں منایا گیا۔ترکی کے قونصلیٹ جنرل نے تمام پاکستانی مہمانوں کو خوش آمدید کہا اس موقع پر ترکی کے صدر طیب اردگان کا خطاب بھی لائیو نشر کیا گیا۔قونصل جنرل نے اپنے خطاب میں ترکی اور پاکستان کی دوستی کو لازوال قرار دیا اور کہا کہ دونوں ملک بھائی بھائی ہیں اور ہم اپنی دوستی پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ پی سی کے بڑے ہال میں جہاں نامور اور معروف شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا وہاں میر کاروان لاہور کی آن بان اور شان مجیب الرحمن شامی صاحب بھی مدعو تھے۔ مقامی چینل کے کرنٹ آفیئر پروگرام میں ان کی سچی اور کھری منافقت سے پاک گفتگو سننے والی ہوتی ہے سب جونیئرز نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے وہLiving Lagand ہیں۔ ترکی قونصلیٹ جنرل کے ساتھ کھڑے مصباح شجاع الرحمن نے میری پیاری دوست آپا بشریٰ رحمن کی یادتازہ کر دی کہ وہ ان کے قابل بھانجے بھی ہیں اور آج کل صوبائی وزیرخزانہ کے طور پر اپنا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہاں میری ملاقات ایک ایسے نامور آرٹسٹ سے ہوئی جن کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں۔ معروف انور علی کارٹونسٹ کے بیٹے ہیں۔ انور علی ”ننھا“ سیاسی کارٹون کے حوالے سے بے حد مشہور ہیں اور مشہورمعلم اور نامور آرٹسٹ ڈاکٹر اعجاز انور کے والد گرامی بھی ہیں۔ انور علی 1922ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے اسی شہر کے گورنمنٹ کالج سے بی اے کیا۔ پہلے پہل وہ دہلی سے نکلنے والے اخبار ”ڈان“ میں اپنا سیاسی کارٹون دیتے رہے، پھر 1947ء میں لاہور سے نکلنے والے اخبار ”پاکستان ٹائمز“ میں سٹاف کارٹونسٹ کے طور پر ملازم ہوئے،سیاسی کارٹون کے علاوہ انہوں نے ”ننھا“ نامی کارٹون بنائے جو چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک سچ دکھاتے رہے اور بہت سے سیاسی لوگوں کو غصہ دلاتے رہے ان کی قومی خدمات پر ان کا نام کئی بار سول ایوارڈ میں شامل ہوا اور پھر طلسماتی طور پر غائب کر دیا گیا۔ وہ اس بات پر ناراض ہونے کی بجائے ہمیشہ شکر گزار رہے۔ انہوں نے انگریزی کہانیوں کے علاوہ پنجابی کہانیاں بھی لکھیں ان کی تین کتابیں کالیاں اِٹاں کالے روڑ، نوری، گواچیاں گلاں جو ان کی آپ بیتی ہے۔ انور علی 2004ء میں وفات پا گئے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میرے والد گرامی صوفی گلزار احمد ان کے بہت قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ صوفی تبسم بھی اکثر ان کے گھر آتے اور محفلیں سجتی تھیں۔میرے والد مجھے اکثر ان کے گھر اپنے ساتھ لے جاتے، یوں انور علی کی شفقت نصیب ہوتی۔ یہ 1988ء کا دور تھا۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھے کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہوتے یا کوئی کارٹون بنا رہے ہوتے تھے۔
یہ مختصر تعارف انور علی صاحب کا تھا۔ انور علی کے گھر میں بھی ایک مستقبل کے نامور آرٹسٹ رہتے تھے جن کا نام ڈاکٹر اعجاز انور ہے۔ وہ اپنے معروف قابل ادیب، آرٹسٹ والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے بے حد قومی خدمات سرانجام دی ہیں ان کے لاہور پر بڑے احسانات ہیں انہوں نے قدم قدم چل کر پورے پرانے لاہور کو اپنی پینٹنگ میں زندہ رکھا ہوا ہے بہت سی پرانی کہانیاں ان کے سینے میں دفن ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز انور سے ترکی کے یوم آزادی پر بھرپور ملاقات رہی بہت سی یادیں اور باتیں ہم نے شیئر کیں،صوفی تبسم اور ان کے دادااکبر علی کی باتوں کا خوب تذکرہ ہوا جو اب ایک تاریخ ہے۔ ان یادوں کا ذکر بھی ہوگا مگر ابھی جو Good Newsآپ سے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں وہ زیادہ ضروری ہے۔ آپ قارئین کے لئے نئی ہے جیسے کہ میرے لئے تھی انہوں نے چنار سوسائٹی میں ایک آرٹ گیلری بڑی محنت اور محبت سے اپنی زندگی کی کمائی لگا کر بنائی جس کا نام ننھاز ہاؤس رکھا گیاہے۔ڈاکٹر اعجاز انور نے مجھے بتایا کہ وہ چودھواں اعجاز +انور فیسٹیول 15نومبر 2024ء بروز جمعہ 12:30صبح رکھ رہا ہوں اس کی مہمان خصوصی آپ ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ انہوں نے مجھے وہاں آنے کی دعوت دی اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے فوراً ہاں کر دی یہ سوچے بغیر کہ اس دن میری بھتیجی کی شادی بھی ہے۔ خیر انہوں نے مجھے کہاکہ آپ نے 62چنار کورٹ 13کلومیٹر رائے ونڈ روڈ(اڈا پلاٹ) لاہور تشریف لانا ہے۔ میرے لئے وہاں کی دنیا ایک نئی دنیا تھی جس کا ادراک ہونے جا رہا تھا ویسے بھی پینٹنگ کرنا میری زندگی میں ہمیشہ مسرت و شادمانی اور روح کے سکون کا باعث رہا ہے۔ میں ایک گھنٹہ پہلے گیلری میں پہنچ چکی تھی۔ اس کی روداد پھر کبھی سنائی جا سکتی ہے کیونکہ آخری صفحہ کا اختتام ہے اور بات ابھی باقی ہے۔15نومبر کو افتتاح تھا۔16نومبر کو قوالی کی شام تھی۔ 27نومبر صبح گیارہ بجے نقاش سکول آرٹ میں آپ نمائش دیکھ سکتے ہیں۔یکم دسمبر کوڈاکٹر ہسپتال کے قریب تقریباً دس بجے صبح پرانی کلاسک کار اور موٹربائیکس وہاں سے چلیں گی اور ننھاز ہاؤس پہنچیں گی اور وہاں ڈاکٹر ارشد وٹو خوش آمدید کہیں گے (جاری ہے)