جملہ کیسے لکھیں؟
خوب صورت نثر کا راز کیا ہے؟ "خوب صورت جملہ"۔ اور " خوب صورت جملے" کا راز کیا ہے؟ "خون جگر" جلانا۔ سیروں خون جگر خشک ہوتا ہے تب کہیں نظر آتی ہے 'جملہ تر' کی صورت۔ خوب صورت جملے پر کئی باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ لیکن سب باتوں کی ایک بات 'خون جگر جلانا' ہے۔ پڑھنا ، بہت پڑھنا اور لکھنا اور بار بار لکھنا۔ اس مشق کے بطن سے سَچے اور سُچے جملے کی نمود ہوتی ہے۔
بہت سے نامی گرامی (لکھاری) اپنے خیالات صفحہ قرطاس پر انڈیل رہے ہیں۔ علم (اور بے علمی) کی دنیا میں جملوں کے جنگل کے جنگل اگے ہوءے ہیں۔ ان جنگلوں میں ذوق سلیم کو گذرنے کا راستہ نہیں ملتا۔ میں نے ایک بار شکوہ کیا تھا کہ ایک کالم نگار نے کالم میں تین سطری تمہیدی جملہ لکھ دیا۔ یہ جملہ پڑھ کر سر درد شروع ہوگیا تھا۔ خیر وہ پرانی بات تھی ۔ بعد میں وہ شکایت جاتی رہی ۔ ہوا یوں کہ چند دن بعد اسی اخبار میں ان سے بڑے کالم نگار نے پانچ سطری جملے سے کالم کا آغاز کیا ہوا تھا۔ میں نے اسے جدید میڈیا کی دنیا کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا۔ اور اب "نہ لب پہ ہیں شکایتیں نہ دل میں کوئی ملال ہے"
نثر لکھنے میں 'خوب صورت جملہ' چوٹی پر آتا ہے۔ ابتدائی زینوں پر 'صحیح جملہ' لکھنے کی باری آتی ہے۔ ذیل میں رشید حسن خاں کی نایاب تحریر دی جارہی ہے۔ اس میں 'جملے' سے متعلق کچھ بنیادی ، لیکن اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آپ بڑے لکھاری ہیں تو یہ تحریر آپ کے کام کی نہیں۔ نثر کی دنیا کے طالب علم ہیں تو سیکھنے کو بہت کچھ مل جاءے گا۔ لیجیے، رشید حسن خان کو پڑھیے:
"جملہ، لفظوں سے بنتا ہے۔ جملوں سے عبارت بنتی ہے۔ اچھی عبارت کے لیے ضروری ہے کہ جملے بے عیب ہوں۔ بے عیب جملے ہم اس وقت لکھ سکتے ہیں جب لفظوں کو اچھی طرح جانتے ہوں۔ اچھی طرح جاننے کا مطلب یہ ہے کہ تین باتیں ضرور معلوم ہوں؛ (1) لفظ کا صحیح املا کیا ہے، (2) اس کے معنی کیا ہیں، (3) جملے میں اس لفظ کو کس طرح لانا چاہیے۔ اس تیسری بات میں قواعد، روزمرہ ، محاورہ؛ یہ سب شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قواعد کی غلطی نہ ہو، اسی کے ساتھ ساتھ روزمرہ اور محاورہ بھی درست ہو۔۔۔۔
اچھی عبارت وہ ہے جو بے عیب بھی ہو اور اس میں بیان کا حسن بھی ہو۔ ایک ہی بات کو کئی طرح کہا جا سکتا ہے، ذہین طالب علم اس بات کو جلد ہی سمجھ لیتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اچھے سے اچھے انداز بیان کو اپنائیں۔ اس طرف توجہ کرنے سے اور مشق سے اچھی نثر لکھنے کا سلیقہ آتا ہے۔ مولانا حالی کا یہ مصرع ہمیشہ نظر کے سامنے رہنا چاہیے:
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اچھی نثر لکھنے کا کوئی مقررہ قاعدہ نہیں۔ سوچنے سمجھنے سے یہ بات اپنے آپ ذہن پر روشن ہونے لگتی ہے۔ کبھی ایسا کیجیے کہ ایک ہی جملے کو دو تین طرح لکھ کر دیکھیے۔ ایک دو بار لفظوں کی ترتیب بدل دیجیے، ایک دو لفظوں کو نکال دیجیے، یا ایک دو لفظوں کو بدل کردیکھیے۔ آپ کو محسوس ہونے لگے گا کہ ایک ہی جملے کی ان کئی شکلوں میں سے کوئی ایک صورت ایسی بھی ہے جو دوسری صورتوں سے بہتر معلوم ہوتی ہے۔
جملے میں جو لفظ لائے جائیں ، تو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ مطلب کو اچھی طرح ادا کررہے ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ ایک یا دو لفظ بدل دیے جائیں تو پہلے کے مقابلے میں مفہوم بہتر طور پر ادا ہوسکے گا۔ گویا اچھا جملہ لکھنے کے لیے مناسب لفظوں کا انتخاب پہلی ضروری بات ہے۔ دوسری ضروری بات یہ ہے کہ جن مناسب لفظوں کو منتخب کیا جائے، جملے میں ان کی ترتیب بھی مناسب طور پر ہونا چاہیے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ کسی جملے میں کسی ایک لفظ کو اِدھر اُدھر کر دینے سے بیان کا حسن بڑھ جاتا ہے ، اور کبھی مفہوم ادا کرنے کی بہتر صورت سامنے آجاتی ہے۔
جملے دو طرح کے ہوتے ہیں: مفرد ، مرکب۔ "مرکب جملے" وہ ہوتے ہیں جو دو زیادہ مفرد جملوں سے مل کربنے ہوں۔ مثلاً اس جملے کو دیکھیے: "وہ کل یہاں سے گئے تھے، لیکن آج پھر واپس آگئے اور آتے ہی جم کر بیٹھ گئے؛ مگر ان کے آتے ہی کچھ دوسرے لوگ بھی آ گئے اور وہ لوگ بھی ان سے باتیں کرنے لگے، یوں سارا دن گذر گیا۔"
اس طویل جملے میں پانچ چھوٹے چھوٹے جملے شامل ہیں۔ لمبے مفرد جملے لکھنا یا طویل مرکب جملے لکھنا غلط نہیں ۔ بہت سے مقامات پر ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ مختصر جملوں میں اگر مفہوم آسانی کے ساتھ ادا ہوسکتا ہو، تو پھر طویل جملے لکھنے کی ضرورت نہیں، اسے غیر مناسب کہا جائے گا۔ مثال کے طور پر اوپر والے طویل جملے دیکھیے۔ اس میں سے 'لیکن'،'اور'، 'مگر' یہ تین لفظ کم کردیے جائیں ، تو یہ ضرورت سے زیادہ لمبا جملہ ، چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم ہوجائے گا: "وہ کل ہی تو گئے تھے، آج واپس آگئے۔ آتے ہی جم کر بیٹھ گئے۔ ان کے آتے ہی کچھ اور لوگ بھی آگئے۔ یہ لوگ بھی ان سے باتیں کرتے رہے۔ یوں سارا دن گذر گیا۔"
لمبے لمبے جملوں میں کبھی یہ خرابی پیدا ہوجاتی ہے کہ زائد لفظ شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ مفہوم کی تکرار ہوجاتی ہے کہ ایک ہی بات کو بار بار کہا جاتا ہے۔ عبارت میں زائد یعنی فالتو لفظ ہوں، اسے عیب کہا جائے گا۔ اسی طرح مفہوم کی تکرار ہو، تو اسے بھی خرابی مانا جائے گا۔ نئے لکھنے والوں کو شروع میں اس کا اچھی طرح اندازہ نہیں ہو پاتا۔ جب مشق ہوجائے اور لکھنا آ جائے ، تب ضرورت کے مطابق ہر طرح کے جملے لکھے جاسکتے ہیں۔ شروع میں مفرد جملے کو مرکب جملے پر ترجیح دینا چاہیے۔ یہ بھی کوشش کرنا چاہیے کہ جملے ضرورت سے زیادہ طویل نہ ہوں۔
ایک مثال سے اسی وضاحت اچھی طرح ہوسکے گی۔ ایک تنقید ی مضمون میں لکھے گئے اس جملے کو دیکھیے:
مرزا عبدالقادر بیدل، مرزا غالب اور مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی روایات فکر وفن کے امین ، کلاسیکی زبان و ادب سے استادانہ واقفیت اور اپنے وسیلۂ اظہار پر مکمل دسترس رکھنے والے، تجزیہ و تفتیش کے مراحل سے گذر کر اپنے پیرایۂ بیان کو زیادہ سے زیادہ شخصی، انفرادی اور مکمل بنانے والے، زمان و مکان کے مسائل کو عشق و وجدان کے تناظر میں قلم بند کرنے والے شاعر نے اردو غزل میں کیسے کیسے گراں قدر اشعار کا اضافہ کیا ہے، جن کی کیفیت سدا بہار ہے، جن کی لطافت و اثر آفرینی قائم و دائم ہے۔
یہ ایک جملہ ہے۔ جملہ کیا ہے، شیطان کی آنت ہے۔ اس سے لکھنے والے کا اناڑی پن ظاہر ہوتا ہے۔ شروع میں مشق کم ہوتی ہے اور معلومات زیادہ نہیں ہوتی ، یہی وجہ ہے کہ مختصر اور مفرد جملے لکھنے پر زور دیا جاتا ہے۔ ابتدا میں اچھی عبارت لکھنا آ جائے، تو پھر یہ خوبی قلم کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ شروع میں اس طرف توجہ نہ کی جائے، تو پھر زندگی بھر اس خرابی کو بھرنا بھگتنا پڑتا ہے۔ اوپر جس طویل جملے کو نقل کیا گیا ، وہ اس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ کبھی خواجہ حسن نظامی کا کوئی مضمون مل جائے تو اسے دل لگا کر اور نظر جما کر پڑھیے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ زیادہ تر مختصر جملے ہیں۔ بیان میں سادگی اور صفائی ہے۔ عربی فارسی کے مشکل لفظ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چھوٹے چھوٹے جملوں نے عبارت کو چست بنا دیا ہے۔ فالتو لفظوں کا پتا نشان نہیں ملے گا۔ عبارت اس صفائی کے ساتھ مطلب کو ادا کررہی ہے جیسے نظر شیشے کے پار ہوجاتی ہے۔ طاقت سے بھری ہوئی روانی ایسی ہے جیسے جھرنا بہ رہا ہو۔۔۔اچھی نثر میں یہی خوبیاں ہوتی ہیں۔۔۔۔
دو طالب علم باتیں کررہے تھے۔ ایک نے کہا: "مارننگ میں ایک فرینڈ کے گھر گیا تھا۔ پھر فادر کے ساتھ شاپنگ کرنے نکل گیا۔ آفٹر نون میں پلے گراؤنڈ پر گیا۔ وہاں ٹی بریک کے بعد کھیل کی بگننگ بس ہوئی تھی"۔ آپ نے ضرور محسوس کر لیا ہوگا کہ ان صاحب کی گفتگو میں انگریزی کے لفظ غیر ضروری طور پر استعمال میں آئے ہیں۔ انگریزی کے بہت سے لفظ ہماری زبان میں شامل ہوچکے ہیں اور وہ زبان کا حصہ بن گئے یں۔ یہ ایسے لفظ ہیں جن کا بدل ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ جیسے: اسٹیشن، اسکول، میزائل، تھرمامیٹر، اڈیٹر، آکسیجن، ہائڈروجن، ناول، فلم، ٹیلی ویژن، ریفریجیٹر، لاؤڈاسپیکر، پینسل، ایٹم وغیرہ۔ غرض کہ ایسے بہت سے لفظ ہیں۔ اب یہ سب لفظ اردو کے اپنے لفظ ہیں۔ اگر کوئی شخص مثلاً لاؤڈاسپیکر کی جگہ "آلۂ مکبر الصوت" استعمال کرے یا جیسے تھرمامیٹر کی جگہ "مقیاس الحرارت" کہے تو سمجھا جائے گا یہ شخص زبان کو مشکل اور بوجھل بنانا چاہتا ہے، اس کو اچھا نہیں سمجھا جائے گا۔ اسی طرح جن لفظوں کے بدل ہمارے پاس پہلے سے موجود ہیں، ان کی جگہ انگریزی لفظ لانا بے تکے پن کی بات ہے۔ اس سے گفتگو اور تحریر ، دونوں کا رنگ بگڑ جائے گا۔ اوپر جس گفتگو کا حوالہ دیا گیا ہے، اس کا بھی یہی احوال ہے۔ اسے بگڑی ہوئی اردو کہا جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں انگریزی کے جتنے لفظ آئے ہیں، وہ سب غیر ضروری طور پر بھرے گئے ہیں۔ آسانی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا تھا کہ" میں صبح کے وقت ایک دوست کے گھر گیا تھا۔ پھر والدصاحب کے ساتھ کچھ خریدنے کے لیے بازار چلا گیا۔ سہ پہر کو کھیل کے میدان میں پہنچا ، وہاں چاے کے وقفے کے بعد کا کھیل بس شروع ہوا تھا"۔
ایک ادبی رسالے کے ایڈیٹر نے دسمبر-فروری 1992 کے شمارے میں لکھا ہے: "ساہتیہ اکادمی جیسے معتبر ادارے کے اعلان سے بہت پہلے انعام پانے والے کا نام مصدقہ انداز میں سرکولیشن میں آتا رہا ہے"۔ "سرکولیشن میں آتا رہا ہے" بے جوڑ ٹکڑا ہے۔ یہاں انگریزی کا ایک لفظ غیر ضرور ی طور پر شامل عبارت ہوگیا ہے۔ اس کی جگہ عام فہم اردو لفظ بہ آسانی لایا جاسکتا تھا[مثلاً گفتگو، تذکرہ، بات چیت وغیرہ: مدیر]۔ ایسی بے جوڑ پیوند کاری عبارت کو خراب کردیا کرتی ہے۔ پرانے لوگ ایسی زبان کو "گورا شاہی اردو" کہا کرتے تھے۔ ایسی گفتگو یا تحریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص بد ذوق بھی ہے اور مناسب و غیر مناسب لفظوں کے انتخاب اور استعمال میں جو فرق ہوتا ہے، اس سے بھی واقف نہیں۔
عبارت کی خرابی میں زائد لفظوں کا حصہ بھی کچھ کم نہیں ہوتا۔ زائد لفظوں سے مراد ہیں ایسے لفظ جن کو اگر نکال دیا جائے تو مفہوم پر اثر نہ پڑے اور عبارت پہلے سے بہتر ہوجائے۔ پنڈت ہری چند اختر اپنے زمانے کے مشہور شاعر اور ادیب تھے۔ انھوں نے ایک بار ایک نئے لکھنے والے سے کہا تھا: "یہ تو بہتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا لکھنا ہے، لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے کہ کیا نہیں لکھنا ہے"۔ کیسی اچھی بات کہی تھی!
ایک مشہور مجسمہ ساز سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ اس قدر خوب صورت مجسمے کیسے بنا لیتے ہیں۔ اس نے جواب دیا:"میں پتھر کی سل میں سے فالتو حصے نکال دیتا ہوں"۔ باکمال استاد نے ایک جملے میں پوری بات کہہ دی اور بات بھی کیسی، جس کی تشریح کی جائے تو کئی صفحے لکھے جاسکتے ہیں۔
٭اس جملے کو دیکھیے: "چوں کہ وہ بیمار تھے، اس لیے میں ان کو دیکھنے کے لیے گیا تھا"۔ اب اس جملے کو اس طرح لکھ کر دیکھیے: "وہ بیمار تھے، اس لیے میں ان کو دیکھنے گیا تھا"۔ مفہوم وہی رہا، اس میں ذرا سی بھی کمی نہیں ہوئی۔ 'چوں کہ' اور 'کے لیے' کے نکل جانے سے جملہ بہتر ہوگیا۔
٭ایک اور جملہ: "وہ اگرچہ مصروف نہیں تھے، مگر وہ میرے پاس نہیں بیٹھے"۔ اس کو اس طرح لکھ کر دیکھیے:"وہ مصروف نہیں تھے، مگر میرے پاس نہیں بیٹھے"۔ جملے کے شروع میں 'اگرچہ' زائد ہے۔ اسی طرح 'وہ' کی تکرار بھی غیر ضروری ہے۔ دو زائد لفظ نکل گئے تو جملہ بہتر ہوگیا۔
٭"ہم نے سارا سامان تیار کر لیا تھا، مگر اس کے باوجود انھوں نے یہاں ٹھہرنا پسند نہیں کیا، شام ہی کو چلے گئے۔"
دوسرے جملے کے شروع میں 'مگر اس کے باوجود ' آیا ہے۔ اس میں سے 'مگر' کو نکال دیجیے اور یوں لکھ کر دیکھیے:"ہم نے سارا سامان تیار کر لیا تھا، اس کے باوجود انھوں نے۔۔۔"۔ اب اسی کو یوں لکھیے: "ہم نے سارا سامان تیار کر لیا تھا، مگر انھوں نے یہاں ٹھہرنا پسند نہیں کیا"۔ دونوں صورتوں میں عبارت ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 'مگر' اور 'اس کے باوجود' میں سے ایک ٹکڑا زائد ہے۔
٭"وہاں ایسی کوئی جگہ موجود نہیں کہ جہاں مسافر کسی سایہ دار درخت کی چھانو میں بیٹھ سکے"۔ اسی مرکب جملے کو اس طرح لکھ کر دیکھیے: "وہاں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں مسافر کسی سایہ دار درخت۔۔۔"۔ بات بھی مکمل ہوگئی اور بیان کے لحاظ سے عبارت بھی بہتر ہوگئی۔ اب معلوم ہوا کہ پہلے جملے میں 'کہ' اور 'موجود نہیں' دو ٹکڑے زائد تھے۔ ان سے اصل مفہوم میں کسی طرح کا اضافہ نہیں ہوا تھا۔ ان کے نکال دینے سے اصل مفہوم میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ بیان کے لحاظ سے یہ جملہ پہلے جملے کے مقابلے میں بہتر ہوگیا۔ ۔۔۔
٭ "محمود وہاں گئے تو ہیں، لیکن دیکھیے کیا ہوتا ہے۔" قواعد کے مطابق اس جملے میں کوئی عیب نہیں۔ اچھا اب اسے اس طرح لکھ کر دیکھیے:"محمود وہاں گئے تو ہیں، دیکھیے کیا ہوتا ہے"۔ مفہوم میں کمی نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے جملوں میں 'لیکن' نہ لکھا جائے تب بھی جملہ ہر لحاظ سے مکمل رہے گا۔
مگر، لیکن، اگر، چوں کہ، کہ، اگرچہ؛ یہ سب کام کے لفظ ہیں۔ مرکب جملوں میں ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض دفعہ ان کے بغیر مرکب جملے میں ربط پیدا نہیں ہوپاتا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی ان کے بغیر جملہ مکمل ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں یہ ضروری ہے کہ یہ دونوں پہلو لکھنے والے کی نظر میں رہیں۔
٭"یہ مانا کہ آپ وہاں نہیں جائیں گے۔" اس جملے میں قواعد کے لحاظ سے کوئی عیب نہیں، اس کے باوجود اس میں سے 'کہ' نکل سکتا ہے: "یہ مانا آپ وہاں نہیں جائیں گے"۔ بات مکمل ہے، کسی طرح کی کمی پیدا نہیں ہوئی، البتہ بیان کی خوبی کچھ بڑھ گئی۔
٭"غرضیکہ وہ سب لوگ دوبارہ وہیں چلے گئے۔" 'غرضیکہ' لکھنے کی مطلق ضرورت نہیں۔ 'غرض کہ' کافی ہے۔ اس کی جگہ 'الغرض' بھی لکھا جاتا ہے، مگر اس میں عربی پن زیادہ ہے۔ 'غرض کہ' مناسب ٹکڑا ہے۔
٭'یعنی کہ' کبھی کبھی دیکھنے اور سننے میں آ جایا کرتا ہے۔ اس میں 'کہ' زائد ہے، 'یعنی' کافی ہے۔
٭ایک مشہور لکھنے والے نے لکھا تھا: "حالا نکہ انھیں شائع ہوئے ڈیڑھ صدی سے زیادہ کا زمانہ گذر چکا ہے"۔ 'زیادہ کا زمانہ' میں 'کا' زائد ہے۔ "ڈیڑھ صدی سے زیادہ زمانہ گذر چکا ہے" لکھنا بہتر ہوتا۔
٭"اب تم کدھر کو جاؤگے۔" پہلی ہی نظر میں معلوم ہوسکتا ہے کہ 'کدھر کو' میں 'کو' زائد ہے۔ "اب تم کدھر جاؤگئے" بہتر انداز بیان ہوگا۔
٭"وہ ادھر کو گئے ہیں۔" اس میں بھی 'کو ' زائد ہے۔ "وہ ادھر گئے ہیں" لکھنا مناسب ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کردی جائے۔ اُدھر کو، اِدھر کو، جدھر کو، کدھر کو استعمال میں آئے ہیں، شاعروں کے یہاں خاص طور پر۔ مثلاً مولانا حالی کا مشہور مصرع ہے: چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی۔ اس بنا پر ہم ان لفظوں کو غلط نہیں کہیں گے، البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ نثر میں شاعروں کی پیروی نہیں کرنا چاہیے٭۔ شاعروں کو تو بہت سی آزادیاں حاصل ہوتی ہیں۔ ہم ان پر اعتراض نہیں کریں گے، لیکن جب ہم نثر لکھیں گے تو خیال رکھیں گے کہ زائد لفظ جملے میں نہ آنے پائیں۔ اسی وجہ سے ہم 'ادھر کو' نہیں لکھیں گے، صرف 'ادھر' لکھیں گے۔ اسی طرح جدھر اور کدھر۔
٭'اگرچہ' صحیح لفظ ہے، استعمال میں آتا ہے۔ بعض لوگ یہ غضب کرتے ہیں کہ 'اگرچہ کہ' لکھتے ہیں ۔ 'اگرچہ' کافی ہے۔ 'کہ' بے ضرورت ہے، اس کی گنجائش ہی نہیں۔
ہاں 'بہ شرطے کہ' ٹھیک ہے، اسے بلا تکلف لکھا جاسکتا ہے۔ لکھا بھی جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس میں فارسی پن نمایاں ہے۔ آپ اگر اپنی نثر میں اس کی جگہ 'شرط یہ ہے' لکھیں تو بہتر ہوگا۔ شروع میں بھاری بھرکم لفظوں سے ممکن حد تک بچنا چاہیے۔ مثلاً : "میں آ جاؤں گا، شرط یہ ہے کہ آپ بھی صحیح وقت پر آنے کا وعدہ کریں"۔
["انشا اور تلفظ"، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، دہلی، 2011]
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔