انگلستان میں مقیم ہزاروں خاندان آج تک چودھری محمد طفیل کی مہربانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، وہ ہر شخص کی مدد کرنا فرض خیال کرتے تھے

 انگلستان میں مقیم ہزاروں خاندان آج تک چودھری محمد طفیل کی مہربانیوں کا ...
 انگلستان میں مقیم ہزاروں خاندان آج تک چودھری محمد طفیل کی مہربانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، وہ ہر شخص کی مدد کرنا فرض خیال کرتے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:28
چودھری محمد فاروق ممتاز قانون دان (دو بار پاکستان کے اٹارنی جنرل رہے)
میرے بڑے بھائی برادرِ محترم فتح محمد (مرحوم) 1957ء میں نیو کاسل (یوکے) گئے تھے وہاں وہ جن چند ساتھیوں کے ہمراہ رہے اُن میں چودھری محمد طفیل سب سے نمایاں اور گہرے دوست تھے۔ چودھری محمد طفیل بھی جالندھر کے رہنے والے تھے اور قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے ضلع ساہیوال کے چک 176/9-L میں اپنے آباؤ اجداد و دیگر رشتہ داروں کے ساتھ آباد ہوئے۔ اُن کے والد کے بڑے بھائی (تایا) چودھری علی محمد (ولایتیا) تھے جو قیام پاکستان سے قبل انگلستان چلے گئے تھے۔ وہ بڑے دوست نواز، ملنسار اور سراپا محبت و پیار والے انسان تھے۔ اُن سے جو بھی ملا اور اپنے کسی مسئلہ یا مشکل کا اظہار کیا چودھری علی محمد بلاتکلف اس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو جاتے۔ کوئی رشتہ دار ہو یا کسی جاننے والے کا عزیز ہو، واقف ہو، اجنبی ہو، کہیں کا بھی رہنے والا ہو، ایک دفعہ جو چودھری علی محمد سے ملا تو پھر وہ اُن کا ہی ہو کر رہ گیا۔ اُنہوں نے اُس زمانہ میں ہزاروں افراد کو انگلستان میں آباد کیا۔ نقل وطن میں اُن کی مدد کی۔ انگلستان میں مقیم ہزاروں خاندان آج تک اُن کی محبت اور دلجوئی کی مثالیں دیتے ہیں اور اُن کی مہربانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ چودھری محمد طفیل بھی اپنے تایا کی روایت پر عمل کرنے والے اُن کا نقش ثانی تھے۔ وہ ہر شخص خصوصاً پاکستانیوں کی مدد کرنا اپنافرض خیال کرتے تھے۔
میں جب انگلستان گیا تو چودھری محمد طفیل سے میری بھی ملاقات ہوئی اور دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی اُن کی شخصیت سے بے حد متاثر اور اُن کا گرویدہ ہو گیا۔ اور انہوں نے بھی زندگی بھر ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح شفقت اور محبت کی۔ میں انگلستان سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس پاکستان آ گیا مگر چودھری محمد طفیل سے رابطہ اور تعلق خاطر کبھی کمزور نہیں ہوا۔ وہ تقریباً ہر سال پاکستان آتے تھے۔ ساہیوال میں قیام کے دوران اور پھر لاہور آ جانے کے بعد بھی ہمیشہ ملاقات رہتی۔ اور میں بارہا ان کے ساتھ ساہیوال سے لاہور اور لاہور سے ساہیوال آتا جاتا رہا ہوں۔ لاہور میں چودھری محمد فاروق ایڈووکیٹ سے اُن کا خصوصی تعلق اور گہری دوستی تھی اور اکثر وہ لاہور میں چودھری محمد فاروق کے گھر پر ہی قیام کرتے تھے۔ کئی بار اُن کے ساتھ میں بھی ہوتا تھا۔ اُن دنوں چودھری محمد فاروق کا وکالت کا دفتر لاہور ہائی کورٹ کے سامنے ای پلومر بلڈنگ میں تھا۔ ہم لوگ اُن کے دفتر بھی آتے جاتے تھے۔ چودھری محمد طفیل کے اُن کے ساتھ بہت قریبی اور خاندانی تعلقات تھے یہی وجہ تھی کہ چودھری محمد فاروق میرے ساتھ بھی برادرانہ شفقت اور محبت فرماتے۔ ساہیوال ضلع کے ڈپٹی کمشنر چودھری نذیر احمد صاحب مقرر ہوئے، چودھری محمد فاروق انہیں ملنے ساہیوال آئے تو ساہیوال میں میرے گھر بھی تشریف لائے اس طرح چودھری محمد فاروق اپنی شفقت اور محبت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔
جب بھی موقع ملتا لاہور میں بھی میرے گھر آتے رہتے۔ میں بھی اُن کے دفتر اور گھر آتا جاتا رہتا تھا اور اس طرح ہمارے درمیان برادرانہ تعلقات گہرے ہوتے گئے۔ اس سلسلہ میں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ جب میں نے ساہیوال سے لاہور شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا تو ان سے بھی مشاورت کی۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی (جو کہ اس وقت اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تھے) محترم خلیل الرحمن رمدے صاحب کو ملوایا اور کہا کہ بشیر احمد مجاہد لاہور شفٹ ہوئے ہیں۔ بڑے لائق بیرسٹر ہیں۔ جس پر انہوں نے میرا نام سٹیٹ لسٹ میں شامل کر لیا۔ اس طرح مجھے سٹیٹ کا دفاع کرنے کے لئے عدالت میں بڑے بڑے وکلاء کے مقابل پیش ہونے کا موقع ملا اورہائی کورٹ میں میری مصروفیات میں اضافہ ہو گیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -