برطانیہ نے اقتدار چھینا اور پیچھے بیٹھ کر مصر میں برائے نام بادشاہت قائم کرا دی، جو اسکی جنبش لب کی منتظر رہتی اور وہ وہی کچھ کرتے رہے جو کہا جاتا 

برطانیہ نے اقتدار چھینا اور پیچھے بیٹھ کر مصر میں برائے نام بادشاہت قائم کرا ...
برطانیہ نے اقتدار چھینا اور پیچھے بیٹھ کر مصر میں برائے نام بادشاہت قائم کرا دی، جو اسکی جنبش لب کی منتظر رہتی اور وہ وہی کچھ کرتے رہے جو کہا جاتا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:  محمد سعید جاوید
قسط:5
ہمارے یہ مصری ساتھی خاصے تعلیم یافتہ تھے اور دورِ جدید کے علوم اور تقاضوں کے علاوہ حالات حاضرہ سے بھی پوری طرح بہرہ ورتھے۔ اس لئے ان کے ساتھ بات کرنے کا لطف آنے لگا اوروہ جلد ہی اچھے دوست بن گئے۔ انہوں نے اپنے وطن کے بارے میں بڑا کچھ سنایا۔ لیکن عام مصریوں کا علم زیادہ تر مصر کی حالیہ تاریخ اور جغرافیہ تک ہی محدود تھا۔ اپنے پرکھوں یعنی قدیم مصریوں اور فرعونوں کے بارے میں وہ بھی اتنے ہی بے خبر تھے جتنے کہ ہم۔ دوسرے لفظوں میں ان کی اکثریت نے اس ساری قدیم نسل سے اظہار لاتعلقی کیا ہوا تھا۔ بہت کم ہی لوگ ایسے ملے جو اپنا ناطہ ان سے جوڑ کر خوشی محسوس کرتے تھے۔ البتہ کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تاریخ سے شغف رکھنے والے مصریوں نے آہستہ آہستہ اس دور کے اسرار و رموز سے پردے اٹھانے شروع کئے اور پھر میں جیسے پوری طرح مصر کے سحر میں جکڑا گیا۔ جب شوق زیادہ بڑھا تو مصر کی قدیم تاریخ پر ایک دو کتابیں بھی خرید لایا، اور خوب جی بھر کے ان کا مطالعہ کیا۔
جب تاریخ سے تھوڑی سی شناسائی ہوگئی تو مصر کے جغرافیے سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے میں اپنے مصری دوستوں کو ساتھ بٹھا لیتا۔ وہ چونکہ مصر کے ہر گوشے سے اپنے اچھے مستقبل کی تلاش میں یہاں چلے آئے تھے۔ اس لئے وہ بڑے فخر اور وثوق سے اپنے اپنے علاقوں کے بارے میں بتا کر میرے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کی روزمرہ کی کار گزاریوں اور عادات و اطوار کا مشاہدہ تو روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہی رہتا تھا۔
پھر میں یہ سب کچھ سن کر اتنا متجسس ہوا کہ خود ہی وہاں پہنچنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر ایک روز پہنچ بھی گیا۔ وہاں مصر کے عمومی معاشرے میں جھانک کر جو کچھ دیکھا، وہ  سیدھے سادے الفاظ میں بیان کر دیا۔ کیونکہ یہ بڑا ہی آسان کام تھا اور سب کچھ میرے سامنے ہی ہو رہا تھا۔ اس کے مشاہدے کے لئے گئے وقتوں کے کھنڈرات میں چہل قدمی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم جب میں نے قدیم مصری تاریخ اور تہذیب کے بارے میں جاننا چاہا تو خود سکتے میں رہ گیا۔ وہاں پڑھنے، جاننے، دیکھنے اور بھٹکنے کے لئے اتنا کچھ تھا کہ اگر مجھے اتنی ہی لمبی عمر اور مل جاتی تو تب بھی میں اس کے رموز اسرار کو دائرہ تحریر میں نہ لا پاتا اور اپنے بال نوچتا ہوا دیوانہ وار مصر کے وسیع و عریض صحراؤں میں جا نکلتا۔
لکھی گئی تحریروں کے مطابق مصر کی تاریخ کو کئی ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جس میں 4 ہزار سال پہلے کے فرعونی ادوار سے شروع ہو کر یونانیوں اور رومیوں کی حکومتوں اور حکمرانوں کے قصے، پھر مصر کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد ابتدائی دور کی کہانیاں ہیں، بعد ازاں فاطمیوں کا عظیم اور سنہری زمانہ بھی اپنا جوبن دکھا کر گزر گیا تو ترک آن پہنچے۔ جن سے بالآخر اس دور کی سب سے بڑی استعماری قوت برطانیہ نے اقتدار چھینا اور پیچھے بیٹھ کر وہاں برائے نام بادشاہت قائم کرا دی، جو اس کی جنبش لب کی منتظر رہتی اور وہ وہی کچھ کرتے رہے جو ان کو کرنے کو کہا جاتا تھا۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -