ریاضی کا مضمون تو کلوروفارم کی طرح ہے
مانچسٹر ، نیوہیمپشائر(Manchester, New Hampshire) کے سکول سپرنٹنڈنٹ Benezet نے 1929 ء میں انتہائی صدمے کی حالت میں لکھا:
’’ابتدائی عمر کے بچے کے لیے ریاضی کا مضمون کلوروفارم کی طرح ہے جو بچوں کی غوروفکر کی صلاحیت کو سن کردیتا ہے۔‘‘ بینزٹ کے بقول بچے پہاڑے رٹ لیتے ہیں ، ان کو جمع تفریق اور ضرب تقسیم سکھائی(یاد کرائی) جاتی ہے لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان سب کا عملی زندگی سے کیا تعلق ہے۔ قدرت نے بچے کے ذہن میں شماریات اور جمع تفریق اور ضرب تقسیم کا ایک خاص نقشہ بنا رکھا ہے۔ سکول میں پڑھائی کا نظام اس نقشے کو تہہ وبالا کردیتا ہے۔ Benezet کے خیال میں ریاضی کی تدریس کا آغاز چھٹی جماعت سے کیا جانا چاہیے۔ اس وقت بچے کا ذہن پختہ ہوچکاہوتا ہے اور وہ ریاضی زیادہ آسانی اور سمجھ داری کے ساتھ سیکھ سکتا ہے۔
Benezet نے نہ صرف تجویز پیش کی بلکہ اس تجویز کو عملاً بروئے کار لا نے کے لیے چھٹی جماعت سے ریاضی کی تدریس کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ Benezet کو اندازہ تھا کہ اس کی مخالفت کی جائے گی خاص طور پر امرا اور پڑھے لکھے طبقے کے لوگ اس کی تجویز کو قبول نہیں کریں گے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے اپنے تجربے کے لیے متوسط طبقے کے علاقوں کو منتخب کیا۔ اس نے ان علاقوں کے سکول پرنسپل اور اساتذہ کو پہلے قائل کیا اور پھر ان کو ہدایات دیں کہ وہ ریاضی کے پیریڈ میں روایتی جمع تفریق کی تدریس ترک کردیں اور طلبہ کو آزادی دیں کہ وہ اپنی پسند کے موضوعات پر بحث و مباحثہ کریں۔ دوسروں کی بات سنیں ، اپنی بات سنائیں اور نتائج اخذ کریں۔ Benezet کے خیال میں یہ طریقہ بچوں میں منطق(Logic) اور استدلال (Reasoning) جیسی صلاحیتوں کے بیج بو دے گا۔ اور یہ صلاحیتیں علمِ ریاضی کی جان ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اساتذہ کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ طلبہ کو گننے ، ماپنے اور جمع تفریق کے تجربات سے بھی گذاریں جو ان کی عملی زندگی سے ماخوذ ہوں۔
Benezet کے اس تجربے کے نتائج آنا باقی تھے کچھ لوگ سمجھتے کہ Benezet کا خیال ایک مفروضے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا جب کہ خود Benezet کو اپنے تجربے کے مثبت نتائج پرسو فیصد یقین تھا۔
منتخب سکولوں میں بچے چھٹی جماعت میں پہنچے تو انھوں نے ریاضی پڑھنا شروع کی۔ شروع میں ان کے لیے ریاضی کی روایتی ٹیکسٹ بکس پڑھنا ایک مسئلہ تھا ، انھیں اصطلاحیں سمجھنے اور پیٹرن کو جاننے میں دقت پیش آئی۔ لیکن سال کے آخر میں ان کی کارکردگی غیرمعمولی ہوگئی۔ Benezet نے بوسٹن یونیورسٹی کے گریجویٹ طلبہ کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور آکر چھٹی جماعت کے طلبہ کا ٹیسٹ لیں۔ اس ٹیسٹ کے نتائج نے بوسٹن یونیورسٹی کے طلبہ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ایک سال ریاضی پڑھنے والے طلبہ چھے سال ریاضی پڑھنے والوں سے کہیں آگے تھے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔