آباؤ اجداد کے ہمراہ 1947ء میں اِس ارض مقدس میں آ کر سجدہ ریز ہوئے، قربانیوں کی داستانیں نشان راہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں

مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:14
رانا امیر احمد خان
آج کی نوجوان نسل کی اپنی قومی اقدار، نصب العین اور روشن مستقبل کی جانب راہنمائی کرنے والے محبِ وطن، نڈر اور عزمِ صمیم کے حامل دردمند افراد اْس نسل کا تسلسل ہیں جو اپنے آباؤ اجداد کے ہمراہ آگ و خون کے تیز و تند دریاؤں کو عبور کر کے 1947ء میں اِس ارض مقدس میں آ کر سجدہ ریز ہوئے۔ اْن کے مصائب، مشکلات اور قربانیوں کی لازوال اور ناقابلِ فراموش داستانیں تاریخ میں رقم ہو کر نشان راہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔
رانا امیر احمد خاں بھی اْسی قدیم اور عظیم قبیلے کے نمائندہ افراد میں سے ایک ہیں۔ بھارت کے ضلع انبالہ کے ایک گاؤں میں رہنے والے اْن کے خاندان کو بھی جنونی ہندوؤں نے صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی لیکن چند سکھ خاندانوں نے انہیں اپنی حفاظت میں لے کر اْنہیں ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا جہاں سے وہ ایک رفیوجی کیمپ میں منتقل ہو گئے اور وہاں سے پاکستان میں آ کر اپنے خاندان کے ساتھ جڑانوالہ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ مڈل کے امتحان میں اپنے سکول میں تیسری پوزیشن حاصل کر کے عزت کے حقدار ٹھہرے اور سکول میں تقاریر کر کے اپنے ہم مکتبوں میں بے حد مقبول ہوئے۔
1958ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے کر 1963ء میں گریجوایشن کی۔ کالج میں اْن کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اور سکاؤٹنگ سول ڈیفنس اور دیگر سماجی سرگرمیاں نمایاں ہوئیں اور سول ڈیفنس میں اْن کی اعلیٰ کارکردگی کی ستائش میں اْنہیں رول آف دی آنر سے نوازا گیا۔
گورنمنٹ کالج کے زمانے میں ہی 1960ء میں رانا صاحب نے ویسٹ پاکستان یوتھ موومنٹ میں شمولیت اختیار کی جو اْس دور میں ملکی سطح پر نوجوانوں کے مشاورتی، فلاحی اور تربیتی پروگراموں کے حوالے سے چند بڑی این جی اوز میں شمار ہوتی تھی۔ نوجوانوں کے امور کے شعبے کے انچارج کی حیثیت سے پنجاب بھر میں پروگراموں کی ترتیب اور انعقاد کے سلسلے میں رانا صاحب کا اْس زمانے میں پروفیسر حمید احمد خان، حکیم آفتاب احمد قرشی، میاں یٰسین خان وٹو،معراج خالد، محمد خاں ہوتی، منیر الدین چغتائی، اور ضیاء السلام انصاری جیسے دانشوروں سے مل کر متحرک کردار بھی ماضی کا شاندار باب تھا جو وقت کی گرد تلے دب کر رہ گیا ورنہ یوتھ موومنٹ نوجوان طلبہ اور طالبات کی رہنمائی کے لئے آج ایک ایسا ادارہ بن چکا ہوتا کہ جس پر بجاطور پر ناز کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال اْس زمانے میں یوتھ موومنٹ کی طرف سے نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے یوتھ کاؤنسلنگ کلینک کا قیام، طالب علم نوجوانوں کو پارٹ ٹائم جاب کے حصول میں مدد دینے کے لئے ٹائپنگ، شارٹ ہینڈ ٹریننگ سکول، اْن کی فکری صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے ڈبیٹنگ کلب کا اجراء، مختلف دیہاتوں میں نوجوانوں کے فلاحی اور تربیتی کیمپوں اور شہروں میں سٹوڈنٹس کنونشنز، تعلیمی سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد جیسے اقدامات کے ضمن میں رانا صاحب کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جن میں ریلیف کیمپ نوجوانوں کی فوج میں بھرتی، لڑکیوں کی ہوم نرسنگ میں ٹریننگ اور بے سہارا خاندانوں کی لڑکیوں کی شادیوں اور جہیز کا انتظام بھی شامل تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔