پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی بانی پی ٹی آئی کی تصاویر لے کر نعرے بازی،کسانوں کو ریلیف دینے کا مطالبہ، وزراء کی غیر حاضری پر کڑی تنقید

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی بانی پی ٹی آئی کی تصاویر لے کر نعرے بازی،کسانوں ...
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی بانی پی ٹی آئی کی تصاویر لے کر نعرے بازی،کسانوں کو ریلیف دینے کا مطالبہ، وزراء کی غیر حاضری پر کڑی تنقید

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(نمایندہ خصوصی) پنجاب اسمبلی کا اجلاس سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔ اپوزیشن ارکان ایوان میں نعرے بازی کرتے ہوئے داخل ہوئے ،اپوزیشن ارکان سپیکر ڈائس کے سامنے بانی پی ٹی آئی کی تصاویر لے کر نعرے بازی کرتے رہے۔

نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے حکومتی رکن عون جہانگیر نے حافظ آباد میں 700ایکٹر زمین پر گندم جلنے پر ایکشن لینے کا مطالبہ کردیا، اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر نے بھی کسانوں کو ریلیف دینے کی استدعا کردی، اور کہا کہ حافظ آباد میں کسانوں کی گندم جل چکی ہے، ڈپٹی کمشنرز حافظ آباد کو ہدایت جاری کریں کہ وہ کسانوں کے نقصان کا تخمینہ لگاکر امدادی رقم کااعلان کرے،اور گندم جلنے والی زمین کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔

سپیکر نے کہا کہ اگر حکومتی اداروں کی وجہ سے کسانوں کا نقصان ہوا ہے انہیں معاوضہ ملنا چاہی۔

اپوزیشن رکن اویس ورک کا کہنا تھا کہ شرقپور واپڈا لائن گندم پر گری جس کی وجہ سے وہ گندم جل گئی ہے۔نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے اسمبلی کے سینئر ترین حکومتی رکن سعید اکبر نووانی نے نشاندہی کی کہ ایوان میں 4 روز تک گندم پر بحث ہوتی رہی لیکن حکومت کی طرف سے آخر میں بحث کو سمیٹا نہیں گیا اور نہ ہی پالیسی بیان جاری کیا گیا اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایوان میں کوئی ایک وزیر بھی موجود نہیں تھا ۔

اپوزیشن رکن رانا شہباز کا کہنا تھا کہ گندم پر بحث سمیٹنے کےلیے ایوان میں کوئی وزیر ہی موجود نہ تھا۔

سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے اجلاس میں کورم کی نشاندہی اچھی روایت نہیں ہے، گندم کا مسئلہ صرف تنقید سے حل نہیں ہوگا ارکان اسمبلی کو مل جل کر اس کا حل نکالنا ہوگا۔سپیکر نے وزراء کی ایوان میں عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اگر کسان کا بوجھ اٹھانا پڑے تو اٹھانا چاہیے،گندم کی بحث پر حکومت کی جانب سے پالیسی بیان آنا چاہیے تھا۔

پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی عامر شاہ نے کسانوں کا معاشی قتل بند کرنے کیلئے سپیکر کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے ان کا کہنا تھا کہ گندم کی امدادی قیمت کا اعلان نہ ہونے سے کسان زہر پی کر خود کشیاں کررہے ہیں،کسانوں کے معاشی قتل پر آپ کے آگے ہاتھ باندھ کر کہتا ہوں کہ انہیں خودکشیوں پر مجبور نہ کریں۔ اپوزیشن رکن رانا شہباز نے علیمہ خان اور بہنوں کی گرفتاری پر ایوان میں احتجاج کیا۔

 سابق سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال نے گندم کی امدادی قیمت کے معاملہ پر سپیکر سے وزیر زراعت کو ایوان میں طلب کرنے کا مطالبہ کردیا، اورکہا کہ وزیر زراعت ایوان میں آکر گندم کی سرکاری پالیسی کا اعلان کریں، گندم کے کسان کا بہت برا حال ہے نہ محکمہ کو پتہ ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے نہ بینک کو پتہ ہے کہ کیا کرنا ہے۔

سعید اکبر نووانی کا کہنا تھا کہ پوری کیبنٹ سے ایک بھی ممبر موجود نہ تھا،سپیکر نے حکومت کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ حکومت کا بوجھ آپ نے اپنے کندھوں پر لے لیا ہے،کابینہ آزاد پھرتی ہے اور ایوان میں آنے کو ذمہ داری نہیں سمجھتی ، وزراءاپنے جواب دیں تو دیکھتا ہوں ہاﺅس کیسے چلتا ہے، حکومتی ارکان اور اپوزیشن نے مشترکہ طورپر سپیکر کو حکومتی امور سے اپنا کردار ادا کرنے سے الگ کرنے کا مطالبہ کردیا، اورکہا کہ آپ اپنے کندھوں پر ذمہ داری لے کر پوری کابینہ کو لے کر بری الزمہ قرار دے دیتے ہیں،وزراءکو سوالوں کے جواب دینے دیں آپ اس معاملہ سے الگ ہوجائیں۔

سپیکر نے اعتراف کیا کہ وزراءکے بنچ خالی رہتے ہیں،ایک وزیر کے علاوہ ایوان میں دیگر وزیر موجود نہیں ہوتے، وزیر اعلی مریم نواز کو بتانے پر مجبور ہیں کہ آپکے وزیر ایوان میں آتے ہی نہیں،کہایہ جاتا ہے کہ وزیر کہیں مصروف ہیں اس لیے ایوان میں نہیں آ سکتے،وزراءکے متعلق پتہ چلایا تو پتہ چلا وہ کہیں بھی مصروف نہیں ہوتے۔

سپیکر نے رولنگ دی کہ وزیروں کی حاضری ایوان میں یقینی بنائیں،اس موقع پرمعاون خصوصی سلمیٰ بٹ کو گندم کی امدادی قیمت کے حوالے سے بحث پر سپیکر ملک محمد احمد خان نے طلب کر لیا۔ وقفۂ سوالات کے بعد سلمیٰ بٹ کو گندم پالیسی کے بارے میں پوچھا جائے اور وہ تقریر بھی کریں۔ وقفہ سوالات کے دوران ممبرز کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری تیمور لالی کا کہنا تھا کہ فیصل آباد ، بہاولپور ، ملتان ، لاہور اور راولپنڈی کےلئے نئی الیکٹرک بسیں شہریوں کی سفری سہولیات کےلیے خریدی جا رہی ہیں جو ماحول دوست بسیں ہوں گی، رواں مالی سال میں 27نئی الیکٹرک بسیں لاہور کے شہریوں کےلئے خریدی گئی ہیں۔

سپیکر کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پبلک ٹرانسپورٹ بسیں متعارف کروائی گئیں لیکن عوام پھر بھی اپنی پوری فیملی کے ساتھ موٹر سائیکل پر جانا ترجیح دیتی ہے، فیڈر بسیں خالی دوڑتی رہتی تھیں اس پر کوئی بیٹھتا ہی نہیں تب ہی یہ بند ہوئیں۔

 اپوزیشن رکن آشفہ ریاض فتیانہ نے ٹوبہ ٹیک سنگھ رجانہ انٹرچینج کمالیہ سے چیچہ وطنی روڈ پر روزانہ 80-90حادثات ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کو ریسکیو 1122 یا پھر 1122کو محکمہ ٹرانسپورٹ میں ضم کردیں، حادثات کے واقعات کی اصل بات نہیں بتائی جا رہی،حکومت کو پابند کیا جائے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ رجانہ انٹرچینج کمالیہ سے چیچہ وطنی روڈ پر حد رفتار 80سے کم کی جائے تاکہ انسانی جانیں ضائع نہ ہوں۔

جواب میں پارلیمانی سیکرٹری کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ کے حادثات کی ذمہ داری نہیں صرف گاڑیوں کی فٹنس پر ہی ایکشن لے سکتے ہیں،ایک سال میں موٹرسائیکل کے 223، بسوں کے 26، وین 7، ٹرک 31، ٹرالی 5، کار 54 ، رکشہ کے 47اور سائیکل کے 11حادثات رونما ہوئے،اب تک جتنے بھی حادثات ہوئے اس میں ڈرائیورز کی غلطی ہوتی ہے۔

سپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ روڈ سیفٹی اتھارٹی یقینی بنائے گی کہ سڑک پر حادثات کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔

اجلاس میں سرکاری کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے مسودہ قانون ترمیم والڈ سٹی لاہور 2025ءاور مسودہ قانون فنانشل ایڈوائزری سروسز پنجاب 2025ءایوان میں پیش کیے ،دونوں بلز وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے پیش کیے،جنہیں متعلقہ قائمہ کمیٹیز کے سپرد کردیا گیا۔ایوان نے مسودہ قانون ترمیم علاقائی منصوبہ بندی اتھارٹی پنجاب 2025ء،پنجاب اسمبلی میں حکومت نے مسودہ قانون ترمیم مالیات پنجاب 2025ء،مسودہ قانون توانائی کا مؤثر استعمال و تحفظ ایجنسی پنجاب 2025ءبل کثرت رائے سے منظور کر لیے،بل پارلیمانی وزیر میاں مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے پیش کیے ، اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔ قانون سازی میں ارکان کی عدم دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ پنجاب اسمبلی میں بلوں کی منظوری کے موقع پر ایوان میں صرف 26حکومتی ارکان اسمبلی موجود رہے، جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 8تھی۔

ورم پورا نہ ہونے پر پینل آف چئیرپرسن ملک ارشد ایڈووکیٹ نے پنجاب اسمبلی کااجلاس منگل کی دوپہر 2 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا۔