اُفق علم و ادب کے تابناک خورشید  ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی (ستارہئ امتیاز) 

     اُفق علم و ادب کے تابناک خورشید  ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی (ستارہئ ...
     اُفق علم و ادب کے تابناک خورشید  ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی (ستارہئ امتیاز) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 زبان و ادبیاتِ اردو کی خوش بختی ہے کہ اُس کے دامن وسیع کو ابتدائی ایام ہی سے گوہرہائے گراں مایہ نصیب ہوتے رہے۔ ان گوہرہائے گراں مایہ میں میر، غالب، مومن، داغ، اقبال، صوفی تبسم، فیض، احمد فراز، منیرنیازی، ساغرصدیقی کے نام ممتاز ہیں اور ان کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ہے۔ 

اردو زبان درحقیقت عرفاء و صوفیاء و عُشاقِ ازلی و ابدی کی نمائندہ زبان ہے۔ یہ وہ زبان ہے کہ جس کا ادب دراصل عربی و فارسی ادبیات ہی کا نکتہئ اوج وتسلسل ہے۔ موجودہ عہد میں زبان و ادبیاتِ اردو کا ذکر کیا جائے تو یہاں ڈاکٹر خورشید الحسن رضوی ایک معتبر ترین اور مستند ترین مینارے کے طور پر سامنے جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ 

کیوں نہ ہوں کہ یہ برصغیر کے ادبی قلب امروہہ میں 19مئی1942ء کو سیّدعلیم الدین رضوی کے گھر آنکھ کھولتے ہیں۔ امروہہ کی سرزمین دراصل عرفائے الٰہی کی سرزمین ہے۔ آپ قیامِ پاکستان سے لگ بھگ پانچ برس قبل علم و ادب کے عظیم مرکز میں پیدا ہوئے۔ خانوادہ سادات کی عظمت و رفعتِ علمی میں کوئی کلام نہیں ہے کہ یہ اسی خانوادے ہی کا فیضانِ نظر ہے جو عالمِ علم وادب کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہیں۔ بقول حکیم الامت 

؎خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہئ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف 

آپ کی طبیعت میں گدازئیت اور حقیقت جُوئی بدرجہئ اَتم موجود ہے۔ آپ کے قریب ترین شاگردان و ہمکاران اس امر سے واقف ہیں کہ اس عہدِپُرآشوب میں جب اخلاقی زبوں حالی نگر نگر قریہ بہ قریہ دکھائی دے رہی ہے اور تصنع و بناوٹ نے معاشرے کی تمام تر اکائیوں کو دیمک کی طرح چاٹ کھایا ہے وہاں ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کی شخصیت ہر طرح بناوٹ اور تصنع سے ماورا بالکل اس بھیڑ سے الگ تھلگ نظر آتی ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ انہیں اس گھٹن زدہ ماحول کی دورنگی یکسر نہیں بھاتی اور وہ یک رنگی و مستقیم روی کے قائل انسان ہیں۔ تبھی تو وہ بڑی بے ساختگی سے بول اٹھتے ہیں۔ 

؎کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی 

وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے

جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں 

یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے

زبان و ادبیاتِ اردو کے لیے یہ امر قابل عزوشرف ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے اس زبان میں شاعری کو اپنا ذریعہئ ابلاغ بنایا اور کیوں نہ ہو کہ وہ دراصل حافظ شیرازی، سعدی شیرازی، عراقی ہی کے تسلسل میں ادبیاتِ اردو میں انسانوں کی ریاکاری اور ملمع کاریوں سے یکسر بیزار دکھائی دیتے ہیں 

؎لرز رہا ہے عدو مجھ کو زیر کرتے ہوئے

کہ ہوں تو میں بھی قیامت اگر بپا ہوجاؤں 

وہ اس اندھیری دھند سے دور کھڑے بارگاہِ ختمی مرتبتؐ میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں انہیں چین و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ 

؎فشار دل پہ بڑھا پھر مدینہ یاد آیا 

میانِ شورشِ طوفاں سفینہ یاد آیا

میں اپنے آپ سے باہر خراب تھا کہ مجھے

جو میرے دل میں نہاں ہے خزینہ یاد آیا

ڈاکٹر خورشید رضوی جب مجازی رومانویت کی بات کرتے ہیں تو یقینا خود کو ادبیاتِ اردو کے کلاسیکل شعراء کے حقیقی نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ 

؎کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد 

اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں 

کہ وہ نوجوانی کی محبت کے ہجرووصل سے آشنا ہیں مگر پختہ عمری میں جب محبوبِ مجازی ہجر کا روگ دے کر وصل کی چاہ کرے تو ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کا وجدانی ضمیر اُس سے کچھ یوں گویا ہوتا ہے 

؎عجب دیار ہے یہ جس میں تاجداروں کے

جَڑے ہیں تاج میں موتی خزانہ خالی ہے

اب آئے ہو کہ نہیں دل میں آرزو کوئی

پرندے اُڑ چکے ہیں آشیانہ خالی ہے

آپ عشق مجازی کے سفر پر جاکر جب واپس لوٹتے ہیں تو خاندانِ رسالتؐ مآب کی چوکھٹ پر اپنا سلام پیش کرتے ہیں۔ 

؎ہے جس میں کہساروں کی عظمت حسینؓ ہے

دریاؤں کی ہے جس میں سخاوت حسینؓ ہے

پہچانتی ہے اُس کے اشاروں کو ذوالفقار

شیرِؓ خدا کا دستِ شجاعت حسینؓ ہے

وہ بیمارِ کربلا حضرت زین العابدینؓ کی عظیم شخصیت کو بھی کچھ اس طرح سلام پیش کرتے ہیں کہ ادبیاتِ اردو انہیں فخرومباہات سے دیکھنے لگتی ہے۔ 

؎اے شام کے بازار! سفر میں ہے مسلسل 

کوفے سے یہ بیمار سفر میں ہے مسلسل 

خانوادہ اہل بیت نبویؐ کے در کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگائے یہ عظیم فرزندِ ادبیات جب احقائے عالم میں گھومتے پھرتے اپنی ارضِ وطن کو لوٹتا ہے تو ہمیں اس دانشور کے قلب و نظر میں چہار سو وطنیت اور حب الوطنی ہی دکھائی دیتی ہے۔ 

؎وطن ہے آنکھ کی ٹھنڈک 

وطن ہے دل کا قرار

وطن ہے صحن گلستاں 

وطن ہے فصل بہار 

؎وطن کی خاک میں سونا ہے غور سے دیکھو

ہیں ذرّے ذرّے میں امکاں چھپے ہوئے دیکھو

پھر اسی سرمستی ئ رندانہ میں وہ اپنے وطن کی سربلندی کے لیے اس طرح دعائیہ کلمات جاری کرتے ہیں کہ دنیائے ادب انہیں ٹھہرٹھہر کر اور سنبھل سنبھل کر دیکھتی ہے۔ 

؎زندہ باد اے ارضِ پاک، ارضِ وطن پائندہ باد

برسرِ اہل وطن دستِ خدائے زندہ باد 

وہ اپنے وطن کے رہبران و بانیان کو بھی کبھی کسی طور نہیں بھولے اور وطن کے ساتھ ساتھ محسنین ملت کو بھی مسلسل خراجِ تحسین پیش کرتے رہے۔ 

؎دیکھی شبیہ کس کی کیا یاد آگیا

بھولا ہوا وہ درسِ وفا یاد آگیا

ہرگز نہ ظلمتوں میں لرزتی تھی جس کی لو

روشن وہ اپنے گھر کا دیا یاد آگیا

اتنے زبردست ادیب اور ماہر ہفت لسان کس طرح سے علم کے اس بلندپایہ مینارے پہ کھڑے ہوکر عظیم فلسفی علامہ محمد اقبال کو کن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: 

؎سوچتی آنکھوں پہ اُبھری ہوئی تابندہ جبیں 

بے یقینی کے سمندر میں ہے مینارِ یقیں 

آج بھی سایہئ مسجد میں تیرا سنگِ مزار

اہلِ بینش کے لیے ہے یدِ بیضاءِ مبیں 

الغرض ڈاکٹر خورشید رضوی بلاشک و شبہ تاریخ ادبیات اردو کے ایک جزوِلاینفک بن چکے ہیں اور ان کا یہ علمی و ادبی سفر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ وہ بیک وقت ایک قادرالکلام شاعر، ایک عظیم نثرنگار اور ماہرِ علوم لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فقیدالمثال اقبال شناس بھی ہیں۔ 

اُن کے عظیم علمی سرمایہ میں شاخِ تنہا، سرابوں کے ہدف، رائیگاں، امکان، دیرباب، پس نوشت، نسبتیں، شناخت اہم کتب ہیں۔ انہوں نے نثرنگاری میں بھی اپنے کمالات کا مظاہرہ کیا ہے جس میں بازدید (خاکے مضامین)، اطراف، Story of Muhammad جیسے جواہر موجود ہیں۔ ہم جیسے کم علموں کے لیے یہ امر مایہئ عزوشرف ہے کہ ہمیں ڈاکٹر خورشید رضوی جیسی علمی و ادبی شخصیت کا سایہئ عاطفت نصیب ہوا اور ہم ان کے عہدِ زریں میں سانس لے رہے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -