انتخابی گھوڑے ۔۔۔ڈاکٹر طاہر القادری کی ضرورت
پاکستان کی سیاست بلا شبہ بدل رہی ہے۔ یہ سیاست پہلے دو بڑی پارٹیوں کے گرد گھوم رہی تھی لیکن اب تیسری اور چوتھی جماعت بھی ابھر رہی ہیں۔ نئی جماعتیں دو بڑی پارٹیوں کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہیں لیکن اس سب سے انتخابی گھوڑے بہت خوش ہو نگے۔ ان انتخابی گھوڑوں کی پہلے یہ مشکل تھی کہ اگر ملک کی بڑی دونوں جماعتیں ان کو رد یا مسترد کر دیتیں تو ان کی انتخابی سیاست ختم ہو جاتی تھی لیکن اب انتخابی گھوڑوں کے پاس مزید آپشن پیدا ہو تے جا رہے ہیں جس سے یقیناًپاکستان کی انتخابی سیاست میں مقابلے کی بہتر فضا ہو گی اور دو جماعتوں کی اجارہ داری بھی ختم ہو جائے گی۔ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی لڑائی بھی نئی نہیں اور نہ ہی پہلی مرتبہ ہوئی ہے جو خبر ہو۔ اب تو گنتی بھی مشکل ہے کہ دونوں پارٹیاں کتنی بار لڑ چکی ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادر ی کا لاہور کا جلسہ بہت کامیاب رہا۔ انہوں نے پاکستان کی انتخابی سیاست میں واپسی کے ساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ قبل از وقت انتخابات کی جہاں نوید دے رہے ہیں وہیں ان میں حصہ لینے کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی جماعت عوامی تحریک اب ووٹ کی طاقت سے انقلاب لانے کے لئے کوشاں ہے جو یقیناًصحیح اور درست راستہ بھی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ وہ سولو فلائٹ کے ماہر ہیں۔ ان کی طبیعت میں ایسی قائدانہ صلاحیتیں ہیں جس کی وجہ سے ان کے قریبی ساتھی ماضی میں ان کا ساتھ چھوڑتے رہے ہیں لیکن تب ان کی جماعت ایک چھوٹی جماعت تھی اس لئے کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ اب ان کے پاس صرف دو ہی بڑے نام ہیں سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی اور سابق گورنر و وزیر اعلیٰ پنجاب غلام مصطفی کھر۔ گو کہ دونوں ’’چلے ہوئے کارتوس ‘‘ہیں ۔ سرادر آصف احمد علی کو تحریک انصاف نے گزشتہ انتخابات میں ٹکٹ نہ دیکر دھوکہ دیا اور وہ انتخابی سیاست سے باہر ہو گئے جبکہ غلام مصطفی کھر اور محمد علی درانی کو یہ امید تھی کہ فنکشنل لیگ اور ن لیگ کے اتحاد میں ان کو پنجاب سے میاں نواز شریف کی حمایت اور ٹکٹ مل جائے گی لیکن ایسا نہ ہو سکااور دونوں انتخابی سیاست سے باہر ہو گئے۔ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر ڈاکٹر طاہر القادری کو انتخابی سیاست کرنی ہے تو انہیں ان دونوں کو عزت دینا ہو گی تب ہی ان کے پاس مزید انتخابی گھوڑے آئیں گے۔ ورنہ ’’مقابلہ سخت ہے ‘‘اور انتخابی گھوڑوں کے پاس اب کافی آپشن بھی بن رہے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ دھرنے نے ان کی جماعت کی احتجاجی سیاست کی طاقت کو منوایا تھا ۔ یقیناًانہوں نے دھرنے میں تحریک انصاف کو بھی مات دی ہے۔ تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد کے دھرنے میں طاہر القادری کے لوگ بھی زیادہ تھے اور منظم بھی تھے لیکن اب اس کے جواب میں ایک منفی پراپیگنڈہ بھی کیا جا رہاتھا کہ یہ سب ان کے تعلیمی اداروں کے ملازم ہیں ، ان کے مرید ہیں۔ پیسے دیکر لائے گئے ہیں۔ یہ سیاسی کارکن نہیں لگتے ۔ لیکن عوامی تحریک کے کامیاب جلسے اس سب منفی پراپیگنڈ ہ کا جواب ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہرا لقادری کو اب لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لئے اپنے انداز اور طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہو گی۔ انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کی جماعت مقبول ہو رہی ہے لیکن یہ مقبولیت ایسی نہیں ہے کہ وہ کھمبے کو ٹکٹ دیں اور کھمبا جیت جائے۔ انہیں انتخابی معرکہ جیتنے کے لئے جیتنے والے انتخابی گھوڑوں کی ضرورت ہو گی۔ ان کے مد مقابل عمران خان ایک بڑی تعداد میں انتخابی گھوڑوں کو اپنی جماعت میں جمع کر چکے ہیں، اور مسلسل کر رہے ہیں۔ ن لیگ کے پاس بھی انتخابی گھوڑوں کی کمی نہیں ہے۔ اس لئے ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے ان کامیاب جلسوں کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہر ضلع ہر تحصیل سے انتخابی گھوڑے ان کے ساتھ شامل ہوں۔ ورنہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان تمام کامیاب جلسوں کے بعد بھی وہ انتخابی سیاست میں کامیاب نہ سکیں جیسا کہ ماضی میں بھی ان کے ساتھ ہو چکا ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخر ڈاکٹر طاہر القادری کو ان انتخابی گھوڑوں کی کیوں ضرورت ہے۔ اگر انہوں نے واقعی انتخابی گھوڑوں کے بغیر سیاست کرنی تھی تو انہیں اپنے اسلام آباد کے دھرنے میں چودھری برادران ، غلام مصطفی کھر اور سردار آصف احمد علی کو سٹیج پر اپنے پیچھے کھڑا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جب انہوں نے ان پرانے چہروں کو اپنے ساتھ کھڑا کیا ہے تو اب انہیں ان جیسے مزید چہرے جمع کرنا ہو نگے۔ یہ اب ان کی ضرورت ہے۔ جس پر انہیں کام کرنا ہو گا تب ہی انتخابی سیاست میں ان کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔
چودھری برادران اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان معاملات دوبارہ طے پا گئے ہیں لیکن دونوں فریقین کو سمجھنا ہو گا کہ بار بار نہیں طے ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور چودھری برادران فی الحال ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ دونوں کو سمجھنا چاہئے کہ اکٹھے رہیں گے تو سیاسی طور پر زندہ بچیں گے ورنہ دونوں کو نقصان ہو گا۔