کراچی اہمیت اختیار کر گیا، متحدہ کے دو وزیر، گورنر اور صدارتی امیدوار کا تعلق بھی اسی شہر سے

کراچی اہمیت اختیار کر گیا، متحدہ کے دو وزیر، گورنر اور صدارتی امیدوار کا ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیاسی ڈائری 
مبشر میر 
وزیراعلیٰ سندھ کے لیے مراد علی شاہ کا انتخاب ،سیاسی پنڈتوں کی نظر میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی پر مضبوط ہوتی ہوئی گرفت ہے اور تو اور سندھ کابینہ کی تشکیل میں بھی ان کا عمل دخل بھرپور دکھائی دیتا ہے ۔گویا پیپلزپارٹی کی نوجوان قیادت مزید ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری پر ایک بڑی ذمہ داری آگئی ہے جہاں ان کو پارٹی کے اندر ایک جدوجہد کرنا پڑے گی وہاں ان کا مقابلہ پارلیمنٹ میں اپنے سے سینئر شہباز شریف اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی ہوگا۔ تحریک انصاف کے قائد نے جس طرح ایک انقلابی ایجنڈا دیا ہے اگر وہ اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کرنے میں کامیاب ہوئے تو بلاول بھٹو زرداری کو زیادہ محنت کرنا پڑے گی ۔وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں سندھ کے حوالے سے بہت مرتبہ ذکر کیا ایک تو صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا دوسراخصوصاً کراچی کے مسائل اور وسائل پر بات کی ۔تحریک انصاف کے لیے کراچی بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔ایک تو تحریک انصاف کراچی شہر کی ایک بڑی جماعت بن گئی ہے ۔گورنر سندھ بھی کراچی سے ہوگا اور صدر مملکت کے عہدہ کے لیے بھی کراچی کاانتخاب کرلیا گیا ہے ۔لہذا یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کراچی کو بھرپور نمائندگی دینا چاہ رہے ہیں تاکہ یہاں کے عوام نے جو مینڈیٹ ان کو دیا ہے اس کے احترام میں ان کے مسائل کو بھی اسی جوش و جذبہ کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مافیا کا ذکر کیا ہے اور کراچی کے مسائل میں لینڈ مافیا اور واٹر ٹینکر مافیا نمایاں ہیں جن پر قابو پانے کے لیے صوبائی حکومت ،وفاقی حکومت اور شہری حکومت کو مل کر کام کرنا ہوگا کسی قسم کی سیاسی مداخلت مسائل کو الجھا سکتی ہے ۔
نیب اور ایف آئی اے کا متحرک اور فعال کردار ہمیں بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔اس وقت منی لانڈرنگ کا کیس بہت اہم ہے جو آصف علی زرداری سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ۔گزشتہ دن سابق صدر نے مبینہ ملزم حسین لوائی اور انور مجید کی عیادت کی اور کچھ وقت ان کے ساتھ گذارا ۔یقیناً یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس پر کھل کا اظہار خیال نہیں کیا ان کی ہمشیرہ بختاور بھٹو زرداری کا ایک ٹویٹ سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے اپنی والدہ کے ہمراہ اس جدوجہد کا ذکر کیا تھا جس میں ان کو کورٹس میں بچپن میں جانا پڑتا تھا ۔ابھی تک ایسا دکھائی نہیں دیا کہ پیپلزپارٹی منی لانڈرنگ کیس یا آصف علی زرداری کے قریبی رفقاء کی گرفتاری پر کوئی احتجاج یا سخت ردعمل کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ ایک وقت وہ تھا جب عباس اسٹیل کے لعل جی کی گمشدگی پر ہی آصف علی زرداری سیخ پا ہوگئے تھے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے تھے جب تک وہ واپس نہیں آئے تھے لیکن اب آصف علی زرداری نے بھی دھیما لہجہ اختیار کیا ہوا ہے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہوئے انہوں نے اعلان کیا جو چاہتا ہے گرفتار کرنا وہ کرلے لیکن ایف آئی اے نے ان کی گرفتاری کے لیے کوئی ٹیم تشکیل نہیں دی ،تیکنیکی لحاظ سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس سابق صدر کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔ایسی صورت میں دیکھا جائے کہ بلاول بھٹو زرداری کوئی تحریک شروع کریں گے یا پھر نواز شریف کی قید کے بعد شہباز شریف کے کردار کی پیروی کریں گے ۔یہ بات باعث دلچسپی ہے کہ انتخابی مہم میں بلاول بھٹو نے اپنے والد کی شخصیت کو قابل ذکر بنانے سے دانستہ اجتناب کیا اور اپنے نانا اور والدہ کو ہی رول ماڈل کے طور پر پیش کیا ۔
ملکی سطح پر وفاقی حکومت جب معیشت کی بہتری کے لیے ایجنڈا طے کرچکی ہے تو اس میں بھی کراچی سرفہرست نظر آرہا ہے ۔ایف بی آر ،کسٹم ،اسٹیٹ بینک ،ایس ای سی پی ،اسٹاک ایکس چینج ،کاروبار میں بہتری ،برآمدات ،کرنسی ،درآمدات پر کنٹرول جیسے تمام معاملات کراچی سے براہ راست منسلک ہیں ۔وزیراعظم عمران خان کی نظر میں اگر کراچی ترقی کرے گا تو پورا پاکستان ترقی کرے گا ۔اس نعرے کو عملی شکل دینے کے لیے مذکورہ بالا تمام اداروں کو بہتر ہونا ضروری ہے لیکن کرپشن کے خلاف احتساب کے عمل کو تیز تر کرنا بھی تحریک انصاف کے ایجنڈے کا حصہ ہے جو ایک مشکل اور دشوار راستہ دکھائی دیتا ہے ۔عوام کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے ریاست پر کراچی کے عوام کا اعتماد بڑھانا بہت اہم ہے لوگ تبدیلی سے خوش تو ہیں لیکن یہ خوف اب بھی کسی نہ کسی طرح موجود ہے کہ وہ برے دن خدانخواستہ واپس نہ آجائیں اس کے لیے صوبائی حکومت کا جرائم پر روک تھام کے لیے پولیس کو بہتر کرنا ایک بڑا چیلنج دکھائی دیتا ہے ۔اگر سندھ پولیس بھی غیر سیاسی ہوگئی تو ان کا امن کا راستہ پائیدار ہوگا اور ترقی و خوشحالی یقینی ہوگی ۔

مزید :

ایڈیشن 2 -