بجلی پر ایک نئی جنگ
ہمارے ملک میں بڑے بڑے عجوبے ہو جانا اب عام سی بات ہوتی جا رہی ہے۔ وزیر توانائی اویس لغاری نے لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے ایک انوکھی منطق پیش کی ہے۔ کہا ہے کہ اگر دو گھنٹے لوڈ شیڈنگ برداشت کر لیں تو 50 ارب روپے کی بچت کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ 50 ارب روپے کی بچت جائے گی کہاں؟ اسی سے Related دوسری بات یہ ہے کہ پہلے کیا صارفین کو 24 گھنٹے بجلی مل رہی ہے جو اس میں 2 گھنٹے کم کر کے 22 گھنٹے بلا تعطل برقی رو فراہم کی جاتی رہے گی؟ ہمارے رہنما ہونے کے دعوے دار پتا نہیں کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے صرف جی جلتا ہے اور کچھ نہیں ہوتا؟ صارفین پہلے کون سے سُکھی بیٹھے ہیں جو اس طرح کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ پھر یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ دو گھنٹے کی ہو یا چار چھ گھنٹے کی بل اتنے ہی آنے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ اور بڑھ کر۔ وفاقی وزیر نے یہ اعتراف تو کیا کہ ان کی حکومت خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی دے رہی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ حالات کو اس نہج تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے اور اس صورت حال میں بہتری کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟ جب ساری دنیا توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں سرگرداں تھی تو ہمارے بجلی گیس اور پٹرولیم کے اربابِ بست و کشاد کہاں سوئے پڑے تھے؟ انہوں نے کیوں نہیں سوچا کہ سستی بجلی کی پیداوار کیسے بڑھائی جا سکتی ہے؟
ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے کے محاورے کی اگر کسی کو سمجھ نہ آتی ہو تو وہ آئی پی پیز کو ادا کی جانے والی کپیسٹی پے منٹس پر غور کر لے۔ پاکستان کے عوام آئی پی پیز کو اس بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو انہوں (آئی پی پیز) نے کبھی پیدا ہی نہیں کی اور جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ بھاری قیمت پر خریدی جاتی ہے اور اس سے بھی زیادہ بھاری قیمت پر صارفین کو فراہم کی جاتی ہے۔ صارفین یہ بجلی مع ٹیکس خریدنے پر مجبور ہیں۔ وفاقی وزیر توانائی نے خود تسلیم کیا ہے کہ غریب صارفین کو جو سستی بجلی فراہم کی جا رہی ہے اس کا بوجھ دیگر صارفین اٹھا رہے ہیں‘ یعنی صارفین آئی پی پیز کو اس بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو وہ پیدا نہیں کرتے اور صارفین اس بجلی کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں جس کی سہولت یا ریلیف حکومت نے غریب عوام کو فراہم کر رکھی ہے۔ صارفین اس بجلی کی قیمت بھی چکاتے ہیں جو چوری ہو جاتی ہے اور اس بجلی کی بھی جو لائن لاسز میں چلی جاتی ہے۔ اور یہ ساری قیمتیں چکانے کے بعد صارفین ادا کی گئی بجلی پر بھاری اور متعدد ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب سوال اٹھایا ہے کہ صارفین بجلی تقسیم کار کمپنیوں سے خریدتے ہیں اور یہ کمپنیاں بجلی فروخت کر کے اس کی قیمت وصول کرتی ہیں تو پھر سیلز ٹیکس صارفین سے کیوں؟
وفاقی وزیر توانائی نے تسلیم کیا کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے انڈسٹری بند ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو کم قیمت پر بجلی دے رہے ہیں‘ لیکن اس کا بوجھ حکومت اٹھا رہی ہے۔ اب یہ تو ایک بیان ہے‘ کیا پتا یہ بوجھ بھی عوام نے ہی اٹھا رکھا ہو؟ عملی صورت حال حکومتی دعووں کے برعکس سامنے آرہی ہے۔ یو بی جی (یونائیٹڈ بزنس گروپ) کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر کا کہنا ہے کہ مہنگی بجلی کے باعث فیصل آباد کی 100 صنعتیں اب تک بند ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرِ ثانی کر کے بجلی کے نرخ کم نہ کرائے گئے تو پاکستان کے تاجروں کے ہاتھ سے 5 ارب ڈالرز کے برآمدی آرڈر نکل جائیں گے۔ دوسری جانب آل پاکستان انجمن تاجران اور تنظیم تاجران پاکستان نے حکومتی ٹیکس سکیم کو تاجر دشمن قرار دیتے ہوئے 28 اگست کو مشترکہ ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ صدر آل پاکستان انجمن تاجران نے کہا ہے کہ حکومت بجلی کے بلوں میں تمام قسم کے ٹیکسز ختم کرے اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور ظالمانہ سلیبز واپس لیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنا بڑا ڈاکہ کہ بجلی کی ضرورت 22 ہزار میگا واٹ اور ادائیگی 48 ہزار میگا واٹ کی جا رہی ہے‘ پھر بھی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ اب ساری اپوزیشن جماعتیں آئی پی پیز اور بجلی مہنگی ہونے کا واویلا کر رہی ہیں لیکن وفاقی وزیر توانائی نے انکشاف کیا ہے کہ عمر ایوب نے ن لیگ کابینہ میں رہتے ہوئے، آئی پی پیز کنٹریکٹ سائن کیے تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ان کی جانب سے واویلا مناسب محسوس نہیں ہوتا جنہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ خود مہنگے معاہدے کیے۔ وزیر توانائی نے البتہ یہ کہا ہے کہ آئی پی پیز سے متعلق جلد خوش خبری ملے گی۔ اب پتا نہیں وہ خوش خبری کیا ہو گی؟
ادھر ایک نئی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ چند روز پہلے حکومت پنجاب نے اپنے چھوٹے صارفین کے لیے عبوری امداد کا اعلان کیا تو اس کے بعد یوں لگتا ہے جیسے پورے ملک میں ایک بھونچال سا آ گیا ہو۔ ایک دوسرے کو طعنے دیے جا رہے ہیں اور الزامات دیے جا رہے ہیں۔ ایسی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جن کا نہ تو صارفین کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ملک میں توانائی کی ترقی کے ساتھ۔ باقی صوبے وزیر اعظم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ صرف پنجاب میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کیوں کی گئی ہے باقی صوبوں میں بھی کی جائے۔ وزیر اعظم کا جواب یہ ہے کہ بجلی کے بلوں پر پنجاب حکومت نے اپنے بجٹ سے ریلیف دیا ہے اور وفاق کا اس ریلیف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے‘ دوسرے صوبے بھی اگر اپنے عوام کو‘ اپنے بجلی کے صارفین کو کوئی ریلیف دینا چاہتے ہیں تو دے لیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتیں سیاست سے گریز کریں۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والے کھربوں روپے میں سے ایک حصہ عوام کے لیے نکالیں۔
یوں بجلی کے معاملے پر ہمارے ملک میں ایک طوفان سا برپا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ حکومت اپنے تمام ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات بجلی کے بلوں سے پورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عوام پریشان ہیں‘ مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں لیکن حکمران یوں مطمئن ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سب کچھ عبوری ہو رہا ہے۔عبوری فیصلے‘ عبوری ریلیف۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا۔ کبھی نہ کبھی تو ان مسائل کی دلدل سے نکلنا ہو گا۔ حیرت یہ ہے کہ اس سلسلے میں بھی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔