مولانا محمد اسحق بھٹی کی یاد میں

مولانا محمد اسحق بھٹی کی یاد میں
مولانا محمد اسحق بھٹی کی یاد میں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا محمد اسحاق بھٹی کو ہم سے بچھڑے آج پانچ برس بیت گئے۔ انکا شمار برصغیر پاک و ہند کے معروف مشاہیر قلم میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تصنیف و تالیف، تاریخ،صحافت اور شخصی خاکہ نگاری میں شہرتِ دوام حاصل کی۔ وہ بلا شرکتِ غیرے عصر حاضر کے عظیم مؤرخ،بلندپایہ مصنف اور خاکہ نویس تھے۔ 70سال اپنے قلم سے دین اسلام اور اردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ مختلف موضوعات پر ان کی کئی دینی،علمی،تاریخی اور سیر و سوانح پر کتب زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آ کر لوگوں سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ موجودہ دور میں چراغ لے کر بھی تلاش کریں تو ان کی مثال ڈھونڈنا محال ہے۔ دنیا تیزی سے ان ہستیوں سے خالی ہوتی جارہی ہے اور کوئی نہیں جو ان کی جگہ لے سکے ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی


وہ اپنی ذات میں انجمن تھےمحض لفّاظی اور محاورے کی حد تک ہی درست نہیں بلکہ وہ اس کے سو فیصد مصداق تھے۔ شخصیت نگاری بھٹی صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا، سوانحی حوالےسے”خاکہ“بھی ایک اہم صنف ہے۔ مولانا نے اپنی تصنیفات میں جن جن شخصیات پر بھی لکھا ان کی ظاہری وضع قطع سے لے کر ان کی ذہنی بالیدگی تک ہر پہلو کو بیان کرڈالا۔ خاکہ نگار اپنے فن میں جتناماہرہوتاہےاس تحریر کے دلچسپ ہونے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ ایک اچھے خاکہ نگار کے لیے ضرور ی ہوتا ہے کہ وہ صرف کسی شخصیت کاجائزہ لینےمیں ہی تاک نہ ہو بلکہ اس شخصیت کی باریکیوں کوبھی بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو،اس کی زندگی اور ذات کے پوشیدہ پہلوؤں کو پیش کرنے پر بھی قادر ہو تب ہی ایک اچھا خاکہ قلم بند ہوسکتا ہے۔اس پر ان کے گوہر بار قلم نے خوب جوہر دکھائے۔ بھٹی صاحب کی تصنیفی خدمات کا دائرہ دور تک پھیلا نظر آتا ہے،جس خوب صورت اور دل کش پیرائے میں اُنہوں نے مقتدر شخصیات کے ’شخصی خاکے‘تحریر کئے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے ہم انہیں اس فن کا امام کہہ سکتے ہیں۔اُن کی تحریروں میں حد درجہ شگفتگی اور سلاست پائی جاتی ہے،اُن کا اُسلوبِ نگارش دل نشیں ہے۔ اُن کے لکھے ہوئے سوانحی خاکے پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ شخصیات میدانِ زندگی میں متحرک اور سرگرمِ عمل ہیں اور ہم ان سے ہم کلام ہیں۔بیس برس پہلے میں نےپہلی مرتبہ مولانا کو دیکھا۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں نے جامعہ پنجاب سے ایم اے کرکے دبستان صحافت کی دہلیز پر پہلا قدم رکھا تھا۔ ایک طفلِ مکتب کیا جانے کہ بھٹی کون ہے؟ تاہم یہ احساس مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا کہ میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کے دور کی شخصیت کے حضور میں ہوں۔میں نےاُنکے گھر خادمِ قرآن ڈاکٹر اسراراحمدؒکو دیکھا کہ تلمیذانہ عجز کےساتھ اُن کے حضور موجود ہیں تو اُن کی عظمت کا احساس مزید گہرا ہو گیا۔

بیس برس سے علم وادب کی دہلیز ہی پر کھڑا ہوں۔اپنی کوتاہ نگاہی کا اعتراف ہےکہ میں اُسے پار نہ کر سکا لیکن اِن برسوں میں یہ ضرور جان لیا کہ برصغیرمیں اسماء علم الرجال کے فن اورشخصیت نگاری کا سہرا مولانا اسحاق بھٹی کو جاتا ہے۔علم و فکر کی دنیا میں ایک مدت سے خزاں کا راج ہے۔اِس بےکیفی نےمولانا اسحاق بھٹی کی کمی کا احساس بڑھا دیا ہے۔مولانا نیک طبع، ملن سا ز ہر دلعزیزانسان تھے۔اُنکی موجودگی سے محفلیں کشتِ زعفران بنی رہتی تھی۔اٹھکھیلیوں اور شگوفوں کا ایک طوفان ہوتا تھا۔دستِ شفقت بھی ہم سب کے سروں پر ہوتا تھا وہ اپنی تمام تر ضعیفی کےباوجود بھی ہمارے ساتھ بے تکلف دوستوں کی طرح پیش آتے۔ اُن کی گفتگو نہایت سادہ مگر دل نشین اور معلومات افزا ہوتی،مختصر اورچھوٹے چھوٹے جملوں میں ساری بات کہہ جاتے تھے اور وہ باتیں بیان کی جو کسی مضمون،مقالے یا کتاب میں نہیں مل سکتیں۔ مولانا اسلامی علوم کا سمندر تھے اور چونکہ ایک نقطہ نظر بھی رکھتے تھے اس لیے اسلامی علوم وفنون کو ایک خاص تعبیر کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ ان کی کوئی کتاب یا تحریر ایسی نہیں ملے گی جو محض کسی غیر علمی مقصد کے لیے لکھی گئی ہو۔ بے معنی تحریر وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔مولانا کو خراج عقیدت کون کیا پیش کرے ان کا علمی کام اور ان کی شخصیت یہ کام خود کرتی رہے گی۔ ہم تو ان کے جوتوں کی خاک بھی نہیں لیکن قدرت کو اپنے اِس نما ئندہ بندے کی بس اتنی ہی ضرورت تھی اور اُن کو واپس بلا لیا گیا۔جنت الفردوس میں قیام کے لیے اور اُن کی خدمات کے اجر کے لیے ۔


وہ میرے ناناشیخ الحدیث حافظ محمدعبداللہ بڈھیمالویؒ کے کزن تھے،اِس لحاظ سے وہ ہمارے عزیز بھی تھے۔ وہ عاجزانہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ اس فقیر نے غزنوی،لکھوی، روپڑی خاندانوں سےلےکرمعروف شخصیات کےتذکروں سے مزین50 ہزارصفحات لکھے ہیں جن میں بڑے بڑے خاندانوں کی تاریخ محفوظ کردی ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ بڑے خاندانوں اور شخصیات پر جو معلومات میں نے لکھ دی ہیں وہ انکی اولاد کو بھی شائد معلوم نہ ہوں۔اِنہیں مولانا معین الدین لکھویؒ سے بڑ ا پیار تھا۔ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ یار مجھے مولانا لکھویؒ سے ہی ملا لاؤ،میں نے گاڑی میں بھٹی صاحب کو بٹھایا او ر مولانا لکھوی کو ملنے اوکاڑہ پہنچ گئے،مولانا شدید نقاہت میں تھے،اُنکے گھر قدم رکھا تو وہ لیٹے ہوئے تھے ،اِنہیں بتایا کہ لاہور سے اسحق بھٹی صاحب آئے ہیں تو وہ تکلیف کی وجہ سے کراہ رہےتھے،بڑی نحیف آواز کے ساتھ بولے اور اٹھنے کی کوشش کی کہ میں اپنے دوست کو گلے لگاسکوں، وہ منظر بڑا جذباتی تھامولانا لکھویؒ نےبھٹیؒ صاحب کو گلے لگا کر چیخیں مار کر رونا شروع کردیا اور کہنے لگے اسحاق بھٹی، اسحاق بھٹی۔ پھر دونوں مرکزالاسلام لکھنئو اور ماضی کی یاد وں میں گم ہو گئے، مولانا لکھوی کو اپنی گھوڑی یادآگئی اور کہنے لگے اسحق بھٹی تمھیں وہ گھوڑی یاد ہے ناں؟۔
مولانا کے خلاء کو پْر کرنے والی شخصیت برصغیر میں مجھے تو دکھائی نہیں دے رہی، پاکستان میں تو یہ خانہ خالی نظر آتا ہے۔ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہمارے نوجوان ادیب اْٹھیں اور اِس عظیم علمی نقصان کی تلافی کریں۔آج شہرت عام عوامی واعظوں او راشتہاری علماء کو تو حاصل ہے جو چند تقاریر یاد کرکے سٹیج کی زینت بنتے ہیں اور لوگوں کے لیے تفریح طبع اور ذہنی تعیش کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ علمی گہرائی،تحقیق و تدقیق اور ذوق تالیف و تصنیف خواص کا حصہ ہیں او ر بدقسمتی سے عام لوگوں کے لیے اس کی حیثیت بے کار مشغلہ کی رہ گئی ہے۔دولت، شہرت اور اقتدار، آج جن جن آستانوں پر جبہ و دستار نیلام ہوتے ہیں، مولانا کے نزدیک ان کی حیثیت پرکاہ سے زیادہ نہ تھی۔مولانا سماجی رکھ رکھاؤ کا بڑا خیال رکھتے تھے، اپنی پیرانہ سالی کے باوجود دوستوں کی خوشی غمی میں حتی الامکان شریک ہوتے۔ اپنی وفات سے ایک ہفتہ پہلے بیماری کے باوجود محترم ڈاکٹر عبدالغفور راشد کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ میں شریک ہوئے،یہ اُنکی آخری سماجی سرگرمی ثابت ہوئی، اِس تقریب میں سینیٹر پروفیسر ساجد میر،جسٹس(ر)افتخار محمد چوہدری،ڈاکٹر حافظ عبدالکریم،ملک رشید احمد خاں ایم این اے،سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی سمیت اہم شخصیات موجود تھیں،مولانا بھٹی پر فیسر ساجد میر کے ساتھ پرجوش انداز سے ملے اور اُنکے چہرے پر مسرت کا اظہار انکی باہمی محبت اور احترام کا پتہ دے رہا تھا۔یہ تقریب اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کرگئی کہ مجھ سمیت بہت سارے اَحباب کے ساتھ مولانا مرحوم کی یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی۔

سفرِ حیات کا تھکا مسافر،تھکاہے ایسا کہ سوگیا ہے

خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں ہرآنکھ لیکن بھگو گیا ہے

مولانا اِس دور میں دلوں پر راج کرنے والے شخص تھے، یہ زمانہ اُنکی کمی پوری نہیں کرسکتا۔

حبِّ یزداں کا وہ اک استعارہ تھا جو داستاں ہوگیا، اِک ستارہ تھا وہ کہکشاں ہوگیا، دل رو رہا ہے واللہ! غم اس قدر ہے کہ کلیجہ پھٹنے کو ہے،اَب ڈھونڈو اُنہیں چراغِ رخِ زیبا لے کر۔میں یہ سوچنےپرمجبور ہوں کہ کیوں ہم ایک ایسے ہوگئے کہ ہماری محبت کے حقدار زندوں سے زیادہ مردے ہوگئے؟ ہم کیوں انسان کی قدر تب نہیں کرتے جب کہ وہ زندہ ہوتا ہےاور ہماری محبت اور توجہ کا زیادہ حقدار ہوتا ہے؟ کیوں ہم اپنی زبان اور اپنے فعل سے اُس کی زندگی میں اُس شخص سے محبت کا اِظہار نہیں کرپاتے ؟کیوں اُس کے تب کام نہیں آتے جب وہ ابھی ہمارے درمیان ہوتا ہے؟ ہمیں ایک انسان کی کیفیات کا خیال تب ہی کیوں آتا ہے جب وہ مرچکا ہوتا ہے کہ فلاں وقت ہم نے اپنی کسی بات سے یا اپنے کسی فعل سے اس شخص کا دل دکھایا؟ اور ہمیں کیوں افسوس ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے معافی مانگنے کا موقع بھی نہیں ملا حالانکہ ہمیں موقع ملاہوتا ہے لیکن ہمیں احساس صرف اس کے جانے کے بعد ہی کیوں آتا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مردہ  پرست قوم ہیں اور ہمیں اِحساس تب ہی ہوتا ہے کہ جب موقع ہمارے ساتھ سے نکل جاتا ہے ،اس کے بعد چاہے باپ کی قبر پر سونے کی اینٹوں سے بھی مزار بنوا دیں کیا فائدہ؟؟؟۔کاش کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا وقت پر اِحساس کرنے والے ہوجائیں تاکہ ہمارے بعد آنے والے بھی ہمارا احساس ہماری زندگی میں کرلیں۔ پانچ برس بیت گئے مولانا بھٹی مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں ایک سیمینار کا بھی اہتمام نہیں ہوا۔ اُن کی تصنیفات شائع کرنے والےمکتبوں،لکھوی، روپڑی اور غزنوی خاندان اُن میں سے کوئی ایک آگے بڑھے ،یہ فریضہ حق بھی ہے اور قرض بھی۔اندھیروں میں مقصد اور نظریے کی شمع روشن رکھنا ہی روشن ضمیر انسان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے جب تک شمع حیات جلتی رہتی ہے، شام غم بڑھتی چلی جاتی ہے مگر سچا استاد تو تخلیق کار ہوتا ہے جو علم و ہُنر کو یکجا کر کے انسانی سرمایے کی تشکیل کرتا ہے۔وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے ہیروز کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کرتی ہیں وگرنہ ہمارے ہاں تو رواج ہے کہ اپنے اعلیٰ آدمی کو مرنے دو اور اس کے بعد بقول منیر نیازی! 
مارنے کے بعد اسکو دیر تک روتے ہیں وہ

اپنے کردہ جرم سے ایسے رہا ہوتے ہیں وہ

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -