ایک آئینی ترمیم عوام کے لیے نہیں ہو سکتی؟
پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں 95 فیصد عوام اور 5 فیصد خاص عرف عام میں اشرافیہ کے بیچ جو فرق ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے زمین اور آسمان کا فرق ہے ایسے لگتا ہے کہ اس ملک کے مالک یہ 5 فیصد ہیں اور باقی سب مزارعے یا غلام ہیں کیونکہ ساری مراعات ان 5 فیصد کو ملتی ہیں اگر ان کو ذرا سی بھی مشکل آتی ہے تو ان کے لیے نیا قانون بن جاتا ہے اگر ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے تو آئین میں ترمیم ہو جاتی ہے یہ 5 فیصد اشرافیہ میں سے ہی سیاستدان ہیں جو باری باری حکومت میں ہوتے ہیں اور کچھ حزب اختلاف میں ہوتے ہیں فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ بھی اس اشرافیہ کا حصہ ہیں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز، کچھ مذہبی راہنما، انگریزوں کی عنایتوں سے بنے بڑے جاگیردار اور فرنٹ مینوں کا کردار ادا کرنے والے سرمایہ دار یہ سب اشرافیہ میں آتے ہیں اب ذرا غور کیا جائے کہ ان میں سے کون ہے جس کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار تھا یا انہوں نے پاکستان بنتے وقت کوئی قربانی دی ہو؟ البتہ ان میں خاصی تعداد ان خاندانوں سے ہے جنہوں نے پاکستان بنتے ہی فائدے اٹھائے تھے. کچھ نے ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے اثاثوں پر قبضے کیے تو کچھ نے بچہ مملکت کے عہدے حاصل کر لیے قربانیاں تو 95 فیصد میں سے عام عوام نے دیں جو ایک ایسی ریاست کے خواب آنکھوں میں لیے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کر آئے کہ جو ریاست اسلامی ہوگی، اس ریاست کا نظام اسلام کے سنہری اصولوں پر قائم ہوگا اور جس میں بلاتحصیص رنگ، نسل، علاقہ اور مذہب سب کو برابر انصاف ملے گا لیکن ان کو کیا پتا تھا کہ ان کی قسمت کے فیصلے اگر پہلے انگریز سرکار اور ہندو ساہوکاروں کے ہاتھ میں تھے تو اب پاکستان کی اشرافیہ کے ہاتھ میں ہوں گے.
ان دنوں 26ویں آئینی ترمیم کے لیے دوڑیں لگی ہوئی ہیں ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان کے سارے مسائل کا حل اس ترمیم میں ہے کئی بار افراتفری میں دونوں ایوانوں اور کابینہ کے اجلاس طلب کیے اور ملتوی کیے گئے، ان سطور کے لکھنے تک اسمبلی کا اجلاس کر کے آئینی ترمیم کا مسودہ پاس کروا لیا گیا ہے اور دونوں ایوانوں کے اجلاس بھی طلب کیے جا چکے ہیں اور حکومتی دعوے کے مطابق ترمیم پاس ہو جائے گی، ہمیں اس ترمیمی مسودے جو سامنے آیا ہے میں کوئی ایسی شق نظر نہیں آئی جس کا فائدہ عوام کو مل رہا ہو اور اسے فوری پاس کروانا عوام کے لیے ضروری ہو، ابھی تک جو نظر آ رہا ہے وہ یہ کہ سپریم کورٹ کے حوالے سے کئی ایسی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کیا جائے اور چیف جسٹس کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر ہوگی وغیرہ،
پاکستان کا 1973 کا آئین ایک بہترین پارلیمانی آئین تھا جو متفقہ پاس ہوا تھا لیکن اس میں آج تک جتنی بھی ترامیم ہوئی ہیں وہ حکمرانوں یا اشرافیہ کی سہولیات کے لیے ہوئی ہیں جس پارلیمنٹ کو عوام منتخب کرتے ہیں اس پارلیمنٹ نے آج تک آئین میں ایسی کوئی ترمیم کی جس سے عوام کے مسائل کم ہوں نہ ہی عوام کے حق میں کوئی قانون سازی کی ہے. کیا اس آئینی ترمیم میں ایسی کسی شق کو شامل نہیں کیا جا سکتا تھا جس کے مطابق عدالتوں میں عام عوام کے مقدمات کے فیصلے جلد ہو سکیں؟ اس وقت نچلی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک عوام کے لاکھوں مقدمات دہائیوں سے زیر التوا ہیں جن کے فیصلوں کا انتظار کرتے کئی لوگ یہ دنیا ہی چھوڑ چکے ہیں زمینوں کے مقدمات جنہیں عدالتی زبان میں دیوانی مقدمات کہا جاتا ہے 40/50 سال تک چلتے رہتے ہیں اسی طرح فوجداری کے کئی سنگین مقدمات کے بھی کئی برسوں سے فیصلے نہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے لوگ خود قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں. اس کے علاوہ عوام کو ہر شعبے میں مسائل کا سامنا ہے بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تمام حکومتی اداروں میں بدعنوانی ہے اور عوام کو خوار کیا جاتا ہے جو لوگ بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں (ان میں کئی فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعینات ہیں) کی تنخواہیں لاکھوں میں اور ساتھ لاکھوں کی اضافی مراعات اور فضول کے پروٹوکول ہیں جب کہ عوام فاقوں کا سامنا کر رہے ہیں کیا ہمارے ایوان کبھی کوئی ترمیم عوام کے لیے بھی کریں گے اور اس کے پاس کروانے کے لیے ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال کریں گے جو 26ویں ترمیم کے لیے کئے گئے۔