بلوچستان پر مکالمے کی ضرورت

ایک بار پھر بلوچستان سے سات پنجابیوں کی لاشیں آئیں تو میرا خیال تھا اس کا کوئی سنجیدہ نوٹس لیا جائے گا مگر بات آئی گئی ہو گئی۔ البتہ یہ خبر ضرور آئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں سے ملاقات کی اور انہیں پنجاب میں ہر ممکن تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ فیصل آباد کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایک شخص کی تدفین پر اس کے لواحقین نے بتایا وہ اپنی بہن کے پاس ایک تعزیت کے لئے گئے تھے، انہیں واپس آکر عمرے کے لئے جانا تھا، اس لئے بہن سے ملنا چاہتے تھے لیکن واپسی پر ان کا شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں ماری گئیں۔ باقی چھ افراد کو بھی شناختی کارڈ پر پنجاب کا پتہ دیکھ کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف سیاسی رہنما بلوچستان کی تشویشناک حالت کا رونا رو رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جیسے سینئر رہنما کی زبان سے جب یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ بلوچستان کے چھ سات اضلاع حکومت کی عملداری میں نہیں رہے اور کسی وقت بھی آزادی کا اعلان کر سکتے ہیں، جنہیں بعض طاقتیں علیحدہ ریاست تسلیم بھی کرلیں گی تو تشویش کی لہر پورے وجود میں دوڑ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے وفد نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے ملاقات میں بھی یہ معاملہ اٹھایا اور بلوچستان کے حالات پر توجہ دینے کی درخواست کی، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ کسی حکومتی شخصیت کی طرف سے معاملے کی سنگینی کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے نزدیک بلوچستان میں مکمل امن ہے اور حکومتی رٹ کو کہیں بھی چیلنج کا سامنا نہیں، جو گاہے بہ گاہے پنجابیوں کو بسوں سے اتار کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ اس کا مقصد سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ پنجابیوں میں بلوچستان کے حوالے سے نفرت ابھاری جائے اور اس کے بعد بلوچستان میں اپنا مذموم دھندہ جاری رکھا جائے۔ یہ پنجابیوں کا ظرف ہے کہ وہ ایسے واقعات پر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اس میں عام بلوچی عوام کا کوئی ہاتھ ہے۔ وہ جانتے ہیں مٹھی بھر علیحدگی پسند عناصر اس سازش کا حصہ ہیں۔ باقی عوام کی اکثریت محب وطن اور پاکستان کی حامی ہے۔ اس وقت پنجاب میں لاکھوں بلوچی آباد ہیں۔ خوشحال ہیں، بڑے بڑے کاروبار کررہے ہیں، انہیں یہاں عدم تحفظ کا احساس ہے اور نہ کسی قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ البتہ اہل پنجاب کو یہ شکوہ ضرور ہوتا ہے کہ جب بلوچستان میں صرف شناختی کارڈ پر لکھے پتہ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو بلوچ عوام کی طرف سے اس کی مذمت میں آواز نہیں اٹھتی۔ماہرنگ بلوچ جیسے رہنما بھی جو اس بنیاد پر تحریک چلا رہے ہیں کہ بلوچ نوجوانوں کو غائب کردیا جاتا ہے یا ان کی لاشیں ملتی ہیں، پنجابیوں کو بے گناہ مارنے پر مذمتی بیان جاری نہیں کرتے، جو مسافر ہے اس سے کسی کی کیا جنگ ہو سکتی ہے اسے مار کر ملتا بھی کچھ نہیں کہ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے مقصد دہشت پھیلانا ہے اور دو قومیتوں کے درمیان نفرت کا بیج بونا ہے۔ اس میں انہیں اس لئے کامیابی نہیں ملتی کہ پنجاب اور بلوچستان کے عوام اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ گمراہ ہو جانے والے کسی دشمن کے ایجنڈے پر عمل کررہے ہیں۔
کئی دانشور، صحافی، سابق بیورو کریٹس اور بلوچستان کے حالات پر نظر رکھنے والے اس طرف توجہ دلا چکے ہیں کہ بلوچستان کے بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ بلوچستان کے چند سرداروں کو ہمنوا بنا کر جیسا مرضی نظام مسلط کیا جائے کوئی مزاحمت نہیں ہو گی۔سرداری نظام بلوچستان میں آخری سانسیں لے رہا ہے۔اُسے اسٹیبلشمنٹ زندہ رکھے تو رکھے وگرنہ سرداروں کی اب بلوچستان کے عوام پر گرفت نہیں رہی۔آج وہاں ماہرنگ بلوچ جیسے نوجوان رہنماؤں کا طوطی بول رہا ہے۔ بلوچستان جہاں خواتین کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، کئی علاقوں میں ووٹ تک ڈالنے کی روایت نہیں تھی،آج ہزاروں کی تعداد میں خواتین باہر نکلتی ہیں، جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت کرتی ہیں،بلکہ کوئٹہ سے چل کر لاہور تک پہنچ جاتی ہیں۔نوجوانوں کا سیاسی شعور بھی روایتی سرداروں، وڈیروں اور قبائلی نظام کے سرخیلوں کو دیوار سے لگا چکا ہے۔اس بدلی ہوئی سوچ کو پاکستان کا ہم نوا بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اسے طاقت سے دبایا جائے نہ اُس طرف دھکیل دیا جائے جہاں ملک دشمنوں نے جال پھیلا رکھے ہیں۔حیرت ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے بلوچستان میں اٹھنے والی نئی نوجوان قیادت سے سنجیدہ رابطے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔صرف طاقت سے دبانے کا یک نکاتی بیانیہ اختیار کر کے کب تک حالات کو بے قابو ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔کہتے ہیں ریاست ماں ہوتی ہے، اِس وقت ریاست کو بلوچستان میں ماں بننے کی سخت ضرورت ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات میں ایک بار پھر بلوچستان کے سرداروں کو مسلط کر کے نظام تو چلا دیا گیا، مگر یہ نظام چل رہا ہے؟ کیا سرفراز بگٹی کی صوبے کے امور پر گرفت ہے؟ وہ پنجابیوں کے قتل کو تو تب روک سکیں گے جب خود بلوچی عوام کو تحفظ دیں گے۔اگر ملک کے سینئر سیاستدان ایسی تشویشناک باتیں کر رہے ہیں، جو قومی سلامتی پر سوال اٹھا رہی ہیں تو اس پر کوئٹہ میں ایک قومی کانفرنس کا انعقاد ہونا چاہئے،جس میں خاص طور پر بلوچستان میں اُبھرنے والی اِس قیادت کو بلانا چاہئے جو عوام کی آواز بن چکی ہے۔
ہم پنجابیوں کے دِل بہت بڑے ہیں ہم کبھی صوبائیت یا لسانی بنیاد پر نہیں سوچتے، پنجابیوں کا نعرہ پاکستان ہے۔ پنجاب میں کروڑوں بلوچی، پختون، سندھی اور مہاجر موجود ہیں۔ایک ہی علاقے میں رہنے والے کبھی سوچتے بھی نہیں کہ کسی کی کیا پہچان ہے،بلکہ سب پاکستانی بن کر رہتے ہیں۔ہمارے ایک دوست دانشور و کالم نگار، خالد محمود رسول نے کچھ عرصہ پہلے ملتان میں ایک غیر رسمی نشست کے دوران اِس حوالے سے چونکا دینے والی باتیں کی تھیں اور کہا تھا اِس وقت بھی پنجاب میں معیشت پر دوسرے صوبوں سے آنے والوں کا بوجھ بہت بڑھ چکا ہے۔ تعداد اسی طرح بڑھتی رہی تو پنجاب میں مقامی لوگوں کی حیثیت بری طرح متاثر ہو گی۔اس کے باوجود پنجاب میں تعصب کی کوئی لہر موجود نہیں۔البتہ یہ حیرانی ضرور ہے کہ طول و عرض میں پھیلے ہوئے بلوچی افراد اُن زیادتیوں پر آواز کیوں نہیں اٹھاتے جو معصوم پنجابیوں کے ساتھ روا رکھی جاتی ہیں۔ بلوچستان سے باہر بیٹھنے والوں کو ہمیشہ یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے بلوچستان کے عوام باغی ہو چکے ہیں۔ یہ آج کی بات نہیں بھٹو دور میں بھی یہی تاثر عام تھا۔ یہ ایک جعلی اور مخصوص مقاصد کے لئے پیدا کیا جانے والا من گھڑت تاثر ہے۔ سیاستدانوں کو اس بات سے احتراز کرنا چاہئے کہ اتنے اضلاع خود مختاری کا اعلان کرنے والے ہیں کیا اُن اضلاع میں رہنے والے عام بلوچوں سے کسی نے اس بارے میں رائے لی۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے اُن میں سے اکثریت آج بھی محب وطن پاکستانی ہے۔ ضرورت اِس امر کی کہ اُسے علیحدگی پسند ملک دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے اُس سے ڈائیلاگ کیا جائے، سینے سے لگایا جائے کہ ہماری اصل حفاظتی دیوار وہی ہے۔
٭٭٭٭٭