منافع بخش شادیوں کا رجحان

منافع بخش شادیوں کا رجحان
منافع بخش شادیوں کا رجحان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


انتظامی ڈھانچہ کے، ابتدائی سطح کے،ایک نوجوان اَفسرجن کا سماجی تعلق متوسط گھرانہ سے تھا، شادی سے متعلق ترجیحات پر ”مدلّل“بحث کر تے ہوئے کہہ رہے تھے ”جب کوئی نوجوان شب و روز کی مشقت پر مبنی، محنت کے بل بوتے پرمقابلے کا امتحان پاس کر لیتا ہے تو اُس کے سرکاری مرتبہ کو دیکھتے ہوئے قریب اور بعید کے رشتے داروں کے منہ سے رال ٹپکنا شروع ہو جاتی ہے اوران کی غیر متزلزل خواہش ہوتی ہے کہ جیسے بھی ہو وہ اسے اپنا داماد بنا لیں،مگر میرے نزدیک ایسے نوجوان کو اس طرح کے فریب میں کبھی نہیں آنا چاہئے اور شادی کسی بڑے سیاسی،انتظامی یادیگر اعلیٰ معاشی یا معاشرتی پہچان اور مرتبہ کے حامل خاندان ہی میں کرنی چاہئے۔ اس اقدام سے نہ صرف وہ نوجوان اَفسر بلکہ اُس کا پورا خاندان ترقی کے راستے پر گامزن ہو جائے گا“۔


 جہاں اور اَن گنت ”منافع بخش کاروبار“ بڑی سوچ بچار اورمنصوبہ بندی کے بعد شروع کئے جاتے ہیں۔وہاں منافع بخش شادیوں کا رجحان (Marriage Investment) بھی روز بروز  زور پکڑتا جا رہا ہے۔ متذکرہ نوجوان افسر اور اُس  قبیل کے بیشتر افسر ”درخشندہ مستقبل“ کو مستحکم بنانے کے لئے اِسی طرح کے نصب العین رکھتے ہیں۔ متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے سول افسر،سیاست دانوں اور مقتدر گھرانوں میں رشتوں کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اِسی طرح سیاسی، سماجی، کاروباری ودیگر مختلف مقتدر حلقے، متوسط طبقے کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لڑکے، لڑکیوں کے رشتوں کے متمنی ہوتے ہیں۔ متوسط طبقے کے نوجوانوں نے چونکہ بالعموم معاشی اور معاشرتی سہولتوں کی قلّت میں بچپن گزارا ہوتا ہے، اِس لئے مقتدر حلقوں میں جہاں آسائشیں و تعیش سے مستفیض ہونے کے امکانات روشن دِکھائی دیتے ہیں، وہاں، بلاخوف وخطر، دھڑلے سے پیشہ ورانہ عہدہ سے ”انصاف“ کرنے کی اُمنگ بھی شدومد سے جلوہ نماہوتی ہے۔ خواہ کسی کا تعلق متوسط طبقہ سے ہویامقتدرطبقہ سے،ہر ایک اپنے مفادات کے تحفظ کا ”امین“ ہے، اور ان تحفظات کے لئے ”منافع بخش شادی“ بہترین ہتھیار ہے،جو اجتماعی،”فلاح وبہبود“کی ضامن بھی ہے۔


 متوسط طبقے کا اَلمیہ یہ ہے کہ وہ راتوں رات امیرہونا،اور جلد از جلد شہرت کی اوج پر پہنچنا چاہتا ہے۔ قریب یا بعید کے رشتہ داروں میں اگرکوئی تعلیم یافتہ، سلیقہ شعار، خوبصورت اور معاشرتی لحاظ سے انتہائی موزوں رشتہ موجود ہے تو وہ ”آگے“ بڑھنے کی جستجو میں اُسے لائق ِ توجہ نہیں سمجھتے اور مقتدر گھرانوں کی جانب رخ کرتے ہیں۔پھر ویسے بھی یہ ایک خدا لگتی بات ہے کہ گھریلو قسم کی، سادہ لباس، نگوں نظر، چادر پوش۔ بھاگ بھری، جنتے، نسرین اور فتح بی بی جتنی بھی سُگھڑ، لائق اور تعلیم یافتہ ہو جائے،بھلے وہ امورِخانہ داری میں یکتا ہو اور رشتوں کے تقدّس سے جتنی بھی آگاہ ہو۔ وہ ”اعلیٰ“ معاشرتی حلقہ کی شوخ و چنچل، تیز نظر، نازک ادا۔ غنوہ،بوبی، آبگینہ اور آدلہ سے کیسے مقابلہ کر سکتی ہے۔اپنے چارسُو پھیلے سماج میں ہم اگر ایسے رشتوں کا تجزیہ کریں، تو کچھ جانے پہچانے،کچھ بہت ہی معروف اور کچھ غیر معروف جوڑے دِکھائی دیتے ہیں، جن کا خمیرایسے منافع بخش بندھن سے اٹھایا گیا،جہاں مرد کی زندگی بظاہر آسائشوں کی زیبائش میں لپٹی دِکھائی دیتی ہے، مگر پس ِ دیوار اُس کی حیثیت ایک ادنیٰ غلام سے بھی کم تر ہوتی ہے۔

وہ اپنا سماجی بھرم رکھنے کے لئے ہر روز ایک نیا جھوٹ بول کر ذلت کے جام غٹ غٹ پی رہا ہوتا ہے۔اس”مشروب“کی ”تاثیر“ اُس کی اُداس آنکھوں،اُترے چہرے اور لڑکھڑاتے قدموں سے آشکار ہو رہی ہوتی ہے اور اندرونِ خانہ  ہونے والی ”دوستانہ چپقلش“کی گواہی اخبارات، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر مکرر نَشّر ہو رہی ہوتی ہے،چونکہ ان سے طلاق یا دوسری شادی کی خواہش روزِ اوّل بحق سسرال ضبط کر لی جاتی ہے۔کتنوں کی نظریں ماضی میں اُن لڑکیوں کی طرف لپک جاتی ہیں، جنہیں وقت کی رفتار سے سست اور دقیانوسی ماحول کی پروردہ سمجھ کر رد کر دیا۔انہیں اپنے گھروں میں خاوندوں کے ساتھ، مصنوعی زندگی سے پاک،خلوص میں گندھی، خوش و خرم زندگی گزارتے دیکھ کر ان کی حالت منیرنیازّی کے بقول”اوس پرانے  دن دے وچوں کر کے یاد ایک موکے نوں۔ زوروی لا کے روک نہیں سکیا اپنے دِل دے ہو کے نوں“ والی ہوتی ہے۔


لازِم نہیں ایسا ہر رشتہ ناکامی کا منہ دیکھے۔ بہت سے نوجوان اَفسر جو خود کو بلینک چیک گردانتے ہیں اور”دولت آباد“یا”سسرال کوٹ“ جیسے مقاماتِ قدرومنزلت پر ابتدائی تعیناتی میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تو منزلِ مقصود پر پہنچتے ہی منافع بخش شادی سے حسب ِ نصبُ العین سرفراز ہوتے ہیں۔نہ صرف مال وزر سے ان کاآنگن چاند کو  شرمندہ کرتا ہے،بلکہ ملازمت کے دوران ”مقاماتِ فیض“ دیدہ راہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ”اچھا کرتے ہیں“کہ اپنی جنم مٹی سے اُس کی اوقات کے مطابق ہی واسطہ رکھتے ہیں، وگرنہ ”یادِ ماضی عذاب ہے یارب“کا ترانہ ان کے لئے اذیت پرور ہو سکتا ہے۔


کتنے بد نصیب ہیں وہ محنت کش، سادہ لوح اور پیکر ِ خلوص لوگ،جو اپنی تمام تر توجّہ اور محنت رسیدہ کمائی اپنے بے سہارا، یتیم اور مفلس عزیزوں پر قربان کر دیتے ہیں تا کہ انہیں بڑا آدمی بنا سکیں اور ان کے دل کے کسی کونے میں یہ خواہش بھی اٹکی ہوتی ہے کہ عزیز کو عزت ملنے پر ایک نہ ایک دن معاشرہ انہیں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے گا،مگر حالات و واقعا ت ثبوت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ عزیز کے بڑا آدمی بن جانے کے بعد اکثر ”خدمت گاروں“کی خواہش کو قبر کی مٹی سیراب کرتی ہے۔ اگر یہ تسلسل یونہی جاری رہتا ہے، تو دیہات کے لوگ بالخصوص اور غریب علاقوں کے لوگ بالعموم بے یارومدگار ہی رہیں گے اور ان سے رشتے ناتے کا سوچنا تو کُجا، ان کی خبر گیری بھی ایک خوابِ عدمِ تعبیر ٹھہرے گا۔دیہات سے شہروں کی طرف جوق در جوق حصولِ تعلیم اور ملازمت کے لئے نقل مکانی کرنے والے لوگ اِ س پہلو پر کتنی اور کب توجہ دیتے ہیں،یہ وقت بتائے گا۔ 

مزید :

رائے -کالم -