گھریلو بجٹ اور خواتین کی پریشانی

  گھریلو بجٹ اور خواتین کی پریشانی
  گھریلو بجٹ اور خواتین کی پریشانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں عام شہری کی مشکلات میں کس قدر اضافہ ہو چکا،  خاص طور پر آج کل گھریلو بجٹ بنانا خواتین کے لئے ایک آزمائش بن چکی ہے۔ہر ماہ خواتین جب بھی خریداری کرنے نکلتی ہیں ہر چیز کی قیمت دوگنی چوگنی ہو چکی ہوتی ہے، یوں خواتین کو بنیادی ضروریاتِ زندگی خریدتے وقت بھی کئی بار سوچنا پڑتا ہے، سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان میں بجٹ جب بھی آتا ہے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عوام کے روزگار کی فراہمی کے لئے بجٹ میں سب سے کم رقم رکھی جاتی ہے ہاں البتہ بڑی رقوم سرمایہ داروں کو فائدہ دینے کے لئے ضرور مختص کی جاتی ہیں۔ ترقیاتی اخراجات کا بھی چوتھائی حصہ ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیاجاتا ہے۔ نئے بجٹ میں بے شمار ٹیکس لگائے گئے ہیں اور اب تک لگائے جا رہے ہیں۔ بجٹ میں خواتین کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے چند نکات بھی نظر نہیں آ رہے کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ثمرات مستحق افراد تک پہنچ پائیں۔ اچھے نکات ہی جب بجٹ میں نہیں ہوں گے تو اس پر عملدرآمد کیا ہوگا۔ مرد آمدنی کی پریشانی میں گھِرے رہتے ہیں جب ایسا نہیں ہو پاتا تو پھر خواتین بھی گھر کے بجٹ کی پریشانی میں گھِری نظر آتی ہیں۔نئے بجٹ کے اچھے اثرات نہ تو معیشت پر دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی گھریلو بجٹ پر۔ سال میں کئی بار بلکہ بار بار مختلف ڈیوٹیوں، ٹیکسوں اور بجلی، گیس پٹرول کے نرخوں میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے، اس ماحول  اور حالات میں خواتین اپنے گھریلو بجٹ کو کس طرح متوازن کر سکیں گی کیونکہ آج کل یہ اندازہ لگانا مشکل ہو چکا ہے کہ کب اور کس وقت مشکلات کا سامنا ہو جائے مہنگائی تو پہلے آسمان سے باتیں کررہی ہے، اب تو حالات یہ ہو گئے ہیں کہ عوام اپنی روٹی دال کو بھول کر بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کے چکر میں پڑ گئے، اس وقت بچوں کو اچھے سکولوں میں پڑھانا بھی ایک عذاب بنتا جا رہا ہے جب آپ کی انکم سے زیادہ بل آ جائیں گے تو گھر کے حالات کیا ہوں گے، عوام نے اپنے بچوں کی سہولیات کا سوچنا بند کر دیا ہے۔ ان کو بجلی کے بلوں کی فکر لاحق ہے۔ جب جب بجلی اور پٹرول مہنگا ہوتا ہے ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ حکومت کہتی ہے آپ سولر لگا لیں کیا سولر ہر شخص کی پہنچ میں ہے کم سے کم سات لاکھ روپے کی ضرورت ہوگی تو گذارہ کرنے کے لئے سولر لگایا جا سکے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب 14اگست سے سولر سکیم کا افتتاح کررہی ہیں امید کرتے ہیں اس سکیم کے تحت ہر ضرورت مندکو یہ سہولیات میسر آ جائیں گی۔ حکومت کو بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے سے پہلے عوام کی ضروریاتِ زندگی پر توجہ دینی چاہیے تاکہ عوام ضروریاتِ زندگی کی چیزیں بآسانی خرید سکیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اب غریب آدمی انڈے خرید کر اپنے بچوں کو نہیں کھلا سکتے۔ ان کے بچے سارا سال گوشت نہیں کھا سکتے کیونکہ ان کے ماں باپ میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اسے خرید سکیں وہ صرف عیدالاضحی کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ حالات سے ستائی ہوئی عورتوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو گھر گھر کام کرتی ہیں ایک کمرہ کرایہ پرلے کر رہتی ہیں ایک پنکھا اور ایک بلب ان کے گھر میں لگا ہے  انہیں بھی آج کل 20سے 25ہزار کا بل آ رہا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں غریب کا ووٹ کیش کرتی ہیں۔ غریب آدمی کے بجلی کے بل خود دینے کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں مگر جیت جانے پر تمام سہولیات امراء کو دی جاتی ہیں یا خود لی جاتی ہیں۔

ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کی ترقی پر بڑے بڑے سیمینار بھی ہوتے رہتے ہیں ان میں بھی ایسی عورتیں جو دن بھر کام کرکے اپنا گھر خود چلاتی ہیں، کیاان کا ذکر ہوتا ہے؟ ایسی خواتین اور ان کے بچوں کے لئے آج تک کسی حکومت نے تعلیم کا بندوبست نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض غریب ماں باپ کے بچے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، اس وقت لاہور کے جس چوک پر بھی دیکھیں وہاں چھوٹے بچے بھی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ ایسی بھی خواتین ہیں جو اپنے بچوں کو لے کر صبح سے شام تک چوراہوں پر بیٹھی ہوتی ہیں کیا ہمارے ملک کے غریب عوام کا یہ مقدر ہے کہ مائیں اپنے شیرخوار بچوں کی چوراہوں میں  بیٹھ کر پرورش کریں۔ ایسے بچوں اور ماؤں کے لئے حکومتِ وقت کو سوچنا چاہیے اگر ان کے لئے کوئی ایسا ادارہ قائم کر دیا جائے جہاں خواتین کے لئے گھریلو صنعت کی کلاسز دی جائیں اور ان کے بچوں کے لئے سکول ہوں۔ خواتین یہاں  ادارے سے سیکھ کر کام کریں اور یوں ایک بہت بڑا بے روزگاری کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور ان کے بچے بھی اسی سکول میں پڑھ کر کل ایک کارآمد شہری بن جائیں گے۔

آج اچانک میری ہمسائی میرے گھر تشریف لائی تھیں  جو اکثر آتے جاتے مجھے میرے گیٹ پر ہی دعا سلام لے لیتی تھیں مجھے وہ ہمیشہ بہت نفیس خاتون نظر آئیں مگر آج وہ بہت پریشان نظر آ رہی تھیں ان کے چہرے کو پڑھتے ہوئے میں نے کہا آج خیر تو ہے شکر ہے آپ میرے گھر تشریف لائیں ورنہ تو اکثر باہر ہی ملاقات ہو جاتی ہے۔ میرا یہ کہنا تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ کہنے لگیں آپ کو نہیں معلوم میں آج بہت مجبوری میں آپ کے گھر آئی ہوں۔ میں نے پوچھا کیا ہوا آپ اللہ خیر کرے۔ایسی کیا پریشانی آ گئی ہے وہ گویا یوں ہوئیں کہ آپ کو تو پتا ہے کہ ہم کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں میں نے کہا آپا ہاں ہاں بالکل ہمارا ساتھ تو کئی سال پرانا ہے، مگر آج کل  میرے شوہر کے کاروبار کا بہت بُرا حال ہے بچوں کی تعلیم ان کی فیسیں اور پھر گھر کے تمام بل اتنے زیادہ آ رہے ہیں خاص طور پر بجلی کے بلوں نے تو ہماری کمر توڑ دی ہے بجلی کٹنے کے ڈر سے بل تو جیسے تیسے ادا کر دیا ہے مگر گھرکے اخراجات کے لئے کچھ باقی نہیں بچا۔ جو قطرہ قطرہ کرکے کچھ بچا کر رکھا تھا سب بلوں کی نذر ہو چکا ہے۔ میرے میاں انہی پریشانیوں کی وجہ سے گھر میں پڑے ہیں۔ وہ بلڈ پریشر کے مریض ہو چکے ہیں۔ میں انہیں دلاسہ دینے لگی مگر مجھے ان کے حالات سن کر بے حد دکھ اور افسوس ہونے لگا کہ مہنگائی اور پھر ان بلوں نے کیسی کیسے کھاتے پیتے گھرانوں کو زیربار کر دیا ہے۔میں اسی افسردگی میں اٹھی کچھ رقم اپنے بیگ سے نکالی اور ان کے ہاتھ میں دے کر ان کی مٹھی بند کر دی اور کہا دیکھیں آپ نے اس کے لئے میرا شکریہ ادا نہیں کرنا۔

   

مزید :

رائے -کالم -