ہمارے دیہاتوں کے مسائل(آخری قسط) 

    ہمارے دیہاتوں کے مسائل(آخری قسط) 
    ہمارے دیہاتوں کے مسائل(آخری قسط) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پچھلے کالم جو تیسری قسط تھی میں ہم بات کر رہے تھے گھریلو جھگڑوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کی، ہم نے ساس بہو کے جھگڑے پر کچھ بات کی تھی یہ دیہاتوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے دراصل ہمارے معاشرے کا خاندانی نظام کچھ اس طرح سے استوار ہو چکا ہے جس میں خاندان مل کر ایک ہی گھر میں رہتا ہے اور بچوں کی شادیوں کے فیصلے بڑوں کے اختیار میں ہوتے ہیں اگر کوئی لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کر کے شادی کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ معاملہ بھی آخر کار بڑوں ہی کے پاس جاتا ہے اس طرح نئی نویلی دلہن کا آتے ہی پورے خاندان سے واسطہ پڑتا ہے اور دو مختلف سوچوں اور تربیت کے حامل خاندانوں کے بیچ اختلافات ہونا کوئی عجب نہیں ہوتا، لیکن یہاں ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ دونوں طرف تحمل سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے مناسب وقت دیں ہمارے مشاہدے میں اکثر یہ بات آئی ہے کہ جب ساس بہو کے درمیان ٹھن جاتی ہے تو بیچارا دلہا خود کو چکی کے دو پاٹوں کے اندر محسوس کرتا ہے ایک طرف اس کی مردانگی جوش مارتی ہے کہ بیوی کی میرے سامنے کیا حیثیت ہے اسے میرے سارے خاندان کا نوکر بن کر رہنا ہو گا اسی طرح دلہا اپنے خاندان اور رشتہ داروں میں اپنی اتھارٹی قائم رکھنے کے لئے دلہن پر دباو ڈالتا ہے اس طرح ہمارے لوگ انسانی حقوق کو پس پشت ڈال کر اپنی سماجی حیثیت اور علاقائی رسم و رواج کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی دیہاتوں میں لاتعداد فضول قسم کے جھگڑے اتنا طول پکڑ جاتے ہیں کہ بعض اوقات قتل تک بات پہنچ جاتی ہے دیہاتوں میں سیاسی متحارب گروپوں کے اختلافات بھی ذاتی دشمنیوں میں بدل جاتے ہیں، چونکہ ہمارے ہاں سیاسی شعور نہیں ہے سیاسی جماعتوں کا کوئی نظریہ ہوتا ہے نہ عوام کسی نظریے کے زیر اثر کسی کا ساتھ دیتے ہیں یہاں یا تو ذاتی مفادات ہوتے ہیں یا دوستی دشمنی کی بنیاد پر گروہ بنتے ہیں شہروں میں زیادہ تر لوگ خاموشی سے ووٹ دے دیتے ہیں یا جماعتی بنیاد پر مہم چلاتے ہیں جبکہ دیہاتوں میں سیاسی جماعتوں کے کارندوں کی سوچ بالکل مختلف ہوتی ہے وہ گاؤں پر اپنا رعب جماتے ہیں اور اپنے لیڈروں کے سامنے سرخرو ہونے کے لئے ہر حال میں اپنا پولنگ جیت کر اپنی بلے بلے بنانے کے چکر میں ہر حربہ استعمال کرتے ہیں دیہاتوں میں چونکہ لوگوں کے زیادہ تر مسائل کا تعلق تھانہ، کچہری اور محکمہ مال کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے لوگوں کو سیاسی کارندوں کی مدد درکار ہوتی ہے اس لئے انتخابات میں بھی ان کی یہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ کس کارندے کی پولیس، وکلاء اور پٹواری سے زیادہ واقفیت یا تعلق ہے۔ یہ سیاسی دشمنیاں بھی قتل تک پہنچ جاتی ہیں دیہاتی لڑائیوں کی ایک وجہ جائیدادوں کی تقسیم، ناجائز قبضہ جات اور ہیرا پھیری بھی ہے بعض اوقات سگے بھائی ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور وہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اپنی اپنی انا پرستی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے جائیداد کی قیمت سے کہیں زیادہ پیسہ مقدمات پر لگا دیتے ہیں اور اپنے بھائی کے علاوہ ہر ایرے غیرے کے آگے جھکنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، ہر ملازم کو پیسے دے کر بھی اس سے گالیاں وصول کرتے ہیں۔

اس سے بڑی جہالت کیا ہو گی کہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلے بھائی کے سامنے نہیں جھکنا اور ہر نتھوخیرے کے پاؤں میں جا کر بیٹھ جانا اور وہاں اپنی انا، عزت غیرت سب کچھ ختم کر دینا۔ہمارے سیاست دان اور ان کے کارندے ایسے جھگڑوں کو مزید ہوا دیتے ہیں، کیونکہ اس طرح وہ اپنے ووٹ پکے کر لیتے ہیں۔ہمارے مشاہدے میں کئی بار آیا ہے کہ دو سگے بھائیوں کے گھر ساتھ ساتھ ہیں ایک بھائی دوسرے بھائی کے گھر کا راستہ بند کر دیتا ہے کسی بات پر کوئی اختلاف ہوا بات آگے بڑھی تو پھر بھائی کو مجبور یا تنگ کرنے کے لئے اس کا پانی یا راستہ بند کر دیا۔زمین ان دو بھائیوں کی ہوتی ہے لیکن معتبر دوسرے لوگ بنے ہوتے ہیں کہ ہم آپ کو راستہ لے کر دیتے ہیں اور وہ دونوں بھائی غیروں کے سامنے ایک دوسرے کو جھکانے کے لئے پورا زور لگا دیتے ہیں۔

دیہاتوں میں خواتین کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں لیکن اکثر خواتین بیچاری ساری عمر گھٹ گھٹ کر جی لیتی ہیں، مگر اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتیں کہ کہیں کوئی گستاخی نہ ہو جائے دیہاتی رسم و رواج ایسے ہیں جہاں عورت کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے مرد عورت کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور ان کے فیصلے خود کرتے ہیں،حالانکہ اب دیہاتوں میں لڑکیاں بہت پڑھی لکھی اور باشعور بھی ہیں، مگر وہ علاقائی اور سماجی روایات میں جکڑی ہوئی ہیں وہ اپنے جذبات کا بھی کھل کر اظہار نہیں کر سکتیں بعض دیہاتوں میں خواتین کو دشمنی کی بھینٹ بھی چڑھا دیا جاتا ہے اور مردوں کی غلطیوں کا خمیازہ خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے ہمارے دیہاتوں کے مردوں کی بڑی اکثریت کو زوجیت کے حقوق کا بھی علم نہیں ہوتا  وہ مستورات کی عزت کرتے ہیں نہ ان کے جذبات کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں اسی لئے خواتین کی جنسی ضروریات کو سمجھا ہی نہیں جاتا اور بعض اوقات خواتین پر جنسی تشدد بھی کیا جاتا ہے جب کسی خاتون کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کا خاوند اس کو خریدی گئی چیز کے طور پر ڈیل کرتا ہے جیسے اس نے بازار سے کوئی کھلونا خریدا ہوتا ہے۔

المختصر یہ کہ ہمارے دیہاتوں کے مسائل میں اسی فیصد ایسے مسائل ہیں جن کے پیچھے ہماری جہالت کارفرما ہے یا پھر علاقائی فرسودہ رسموں اور سوچ کا ہاتھ ہے اگر لوگ تھوڑا عقل سے کام لیں اور اپنے معمولی جھگڑوں کو آپس میں بیٹھ کر سلجھا لیں تو کئی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ برداشت پیدا کی جائے اپنے گھروں میں سب کا خیال رکھا جائے ہر معاملے میں انصاف سے کام لیا جائے اور سب سے بڑھ کر انسانی حقوق اور انسانی جذبات کی قدر کی جائے جائیدادوں کا لالچ کرنے کی بجائے اپنے حصے اور حق تک محدود رہا جائے۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے، لیکن راقم نے بڑی مشکل سے چار اقساط میں ختم کیا ہے۔

  

مزید :

رائے -کالم -