مارچ سے اگست تک
23 مارچ 1940ء ___ یوم پاکستان ___ کادنمسلمانوں کی سیاست میں جوہری تبدیلی لے کر آیا ۔
ہر قومی دِن کی ایک معنویت ہوتی ہے۔یہ معنویت اکثر لفظوں کے پردوں میں چھپ جاتی ہے۔خاص طور پر جب قومی دن کئی دہائیوں کے فاصلے پر واقع ہو۔ یہ بات یوم پاکستان پر بھی صادق آتی ہے۔ ہم سب کہتے ہیں کہ 23مارچ کے دن ایک’قرارداد‘ منظور ہوئی اور اس’ قرارداد‘کے نتیجے میں قیام پاکستان کا فیصلہ ہوا ۔بظاہر ہم درست کہ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم بہت سی باتوں کو سمجھ نہیں رہے ہوتے اور حقیقت کا پوری طرح ابلاغ نہیں کر پا رہے ہوتے۔یہ محض ایک قرار داد نہیں تھی کہ جو معصوم بچوں ، نوجوانوں اور بزرگوں تک کو بھی میدان عمل میں کھینچ لائی تھی۔ یہ اس سے بڑھ کر تھی۔
ہم ریزولوشن کا ترجمہ ’قرارداد‘ کرکے اس لفظ کی روح نکال دیتے ہیں۔آپ انگریزی کی لغت اٹھا کر دیکھ لیں۔ ریزولوشن انگریزی کے لفظ Resolute کا اسم ہے جس کا مطلب ’عزم صمیم‘ ہے۔having or showing great determination۔ 23مارچ 1940ء کے دن ہم نے محض کاغذ پر لکھی ہوئی450لفظوں کی ایک قرارداد پاس نہیں کی تھی۔ اس دن ہم نے ’عزم صمیم‘کا اظہار کیا تھا۔ عزم صمیم جس میں ایک واضح منزل کا پتا تھا اور جو ایمان اور یقین محکم سے عبارت تھا۔یہی عزم صمیم اس دن کی اصل روح ہے اور یہی اس کی معنویت ہے۔حقیقت میں اس زمانے کی جدوجہد کو کوئی عنوان دیا جاسکتا ہے تو ’عزم صمیم‘ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
یوم پاکستان عزم صمیم کیسے بنا؟
عزم صمیم (great determination)دو عناصر سے تشکیل پاتا ہے۔سب سے پہلے ایک واضح ہدف، مقصد اور منزل کا تعین کرنا اور پھر اس منزل تک پہنچنے کے لیے آہنی ارادہ کے ساتھ کمربستہ ہوجانا۔ 23مارچ کے دن __یومِ پاکستان__ میں یہ دونوں عناصر موجود ہیں۔ اس دِ ن پہلی بار مسلمانوں نے اپنی منزل___اپنے لیے آزاد وطن____ کا واضح اور دو ٹوک انداز میں تعین کیا تھا۔ اس سے پہلے الگ وطن محض ایک ہیولیٰ سا تھا جو قائدین اور مخصوص افراد کی زبانوں پر تھا۔دس سال پہلے علامہ اقبال نے الگ وطن کی بات کی تھی تو وہ محض ایک تجویز تھی۔دو سال قبل سندھ مسلم لیگ نے تقسیم کی قرارداد منظور کی تھی تو وہ بھی صوبائی تنظیم کا ایک اقدام تھا۔ 23مارچ 1940ء کو پہلی بار مسلم لیگ نے اسے قومی نصب العین قرار دیا۔
اس سے پہلے مسلم لیگ کی سیاست آئینی اصطلاحات اور دستوری تحفظ کے گرد گھومتی تھی۔ آئینی جدوجہد کی اہمیت اپنی جگہ پر لیکن یہ آئینی پیچیدگیاں عام فرد کے فہم سے بالا تھیں۔ 23 مارچ 1940ء کوپہلی بار مسلم لیگ نے مسلمانوں کے علیحدہ وطن کو اپنا نصب العین قرار دیا تو یہ مسلم عوام کے سطحأ فہم کے عین مطابق بات تھی ۔ مسلمان برصغیر میں ایک ہزار سالہ مسلم حکومت کے وارث تھے۔وہ اس وقت محکوم تھے اور اقلیت میں بھی تھے۔ انھیں علم تھا کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہمیشہ اکثریت کی حکومت ہوگی۔موجودہ کانگرسی وزارتوں کا تلخ تجربہ ان کے سامنے تھا۔ انھیں لگتا تھا کہ اس جمہوری نظام میں وہ محکومی کا جوا اپنے کندھوں سے کبھی اتار نہ سکیں گے۔ ان حالات میں الگ وطن کے تصور میں انھیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت کے آثار نظر آنے لگے۔ گویا یہ ان کے دل کی آواز تھی جسے مسلم لیگ نے نصب العین کی شکل دے دی تھی۔
اس نصب العین کی وجہ سے مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک قومی تحریک بن گئی۔ مسلمان علاقائی جماعتیں چھوڑ کر مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہوگئے۔ اس نصب العین نے انھیں ایک تنظیم کی لڑی میں پرودیا اور ان میں بلا کی قوت پیدا کردی۔ یہی نصب العین اگلے چند سالوں میں ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ ، ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘کے نعروں کی صورت میں گلی کوچوں میں گوجنے لگا۔مسلمان اس نصب العین کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔
1940ء میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اوراگلے سال یعنی 1941ء میں مسلم لیگ نے 23مارچ کے نصب العین کواپنے دستور کا باقاعدہ حصہ بنا لیا۔پانچ سال بعد(1945-46 ء میں) انتخابات ہوئے تو 23مارچ کا یہی نصب العین مسلم لیگ کا انتخابی منشور قرار پایا۔ مسلمانوں کو اپنے اس نصب العین کی حقانیت پر اس قدر یقین تھا کہ ان انتخابات کو مسلم لیگ نے علیحدہ وطن ___پاکستان___ کے لیے ریفرنڈم قرار دیا۔ پوری قوم میدان عمل میں اُتر آئی۔
پہلے مرحلے میں مرکزی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ۔مسلم لیگ نے تیس کی تیس مسلم نشستیں جیت لیں۔ بعد میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ نتائج نکلے تو مسلم لیگ صوبائی اسمبلی کی 492 میں سے 428 نشستیں جیت چکی تھی۔
صرف ایک سال بعد __ 1947 ء میں__ مسلمان اپنا نصب العین پانے میں کامیاب ہوگئے۔وہ خواب جو انھوں نے 23مارچ 1940ء کو دیکھا تھا اس کی تعبیر انھیں 14اگست 1947ء کو مل گئی ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔