جنوبی پنجاب میں ایک اور خوشنما تقریر

بسم اللہ جی بسم اللہ،پھر جنوبی پنجاب کا ذکر ِ خیر ہوا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف ڈیرہ غازیخان پہنچ گئے اور بہت سی خوشخبریاں سنا دیں۔ویسے تو یہ کوئی نئی بات نہیں،جب بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، تب بھی یہاں جلسہ کر کے ساری پسماندگی اور غربت دور کرنے کی نوید سناتی تھیں، نواز شریف بھی کئی مرتبہ یہاں بطور وزیراعظم آئے اور خوشخبریاں سنا کے گئے،اس خطے سے تعلق رکھنے والے سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو انہوں نے ڈنکا بجا دیا کہ اب یہ علاقہ بھی پاکستان کے ترقی یافتہ شہروں کے برابر آ جائے گا۔عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی تو اعلان کیا اب یہاں سے غربت، سرداری نظام کا خاتمہ کر کے خوشحالی کا دور لائیں گے، مگر صاحبو! نجانے اِس علاقے پر کس آسیب کا سایہ ہے۔زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق حالات تو نہیں بدلتے البتہ حکومت بدل جاتی ہے۔ کل وزیراعظم شہباز شریف کے دائیں بائیں سردار جمال لغاری اور سرداری اویس لغاری کھڑے تھے۔جب اُن کے والد سردار فاروق احمد خان لغاری پاکستان کے صدر بنے تو عوام کو توقع تھی کہ وہ کم از کم ڈیرہ غازیخان ڈویژن کی حالت بدل دیں گے،مگر جب وہ رخصت ہوئے تو حالت یہ تھی کہ وہ اپنے علاقے چوٹی زیریں تک کی حالت نہیں بدل سکے۔یہ جنوبی پنجاب کے ساتھ آخر ماجرا کیا ہے؟پنجاب کا آدھا حصہ ہے، لیکن پنجاب کے وسائل کا آدھا حصہ اس پر خرچ نہیں ہوتا۔ کروڑوں کی آبادی کو پسماندہ رکھنے کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آ سکی۔ جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان لاہور سے واپسی پر صاف پہچانے جاتے ہیں کہ عالی شان ترقی کے بعد عالی شان پسماندگی کے علاقے میں داخل ہو چکے ہیں اس خطے نے محرومی کے نام پر کیسے کیسے لوگوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے نہیں دیکھا۔ جنوبی پنجاب کو مملکت کا ہر عہدہ ملا، صدر، وزیراعظم،گورنر، وزیراعلیٰ، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی غرض منصوبوں کی بھرمار تو ہوئی مگر صرف نمود و نمائش کے لئے، سب لاہور یا اسلام آباد جا کے پانی میں مدھانی ہو گئے۔کسی نے اس علاقے کے عوام کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کیا۔اس لئے پسماندگی اور غربت پر سیاست آج بھی اس خطے کی سب سے بڑی سوغات،اسی احساسِ محرومی کو لے کر یہاں علیحدہ صوبے کا نعرہ بھی ایجاد ہوا۔ہر سیاسی جماعت نے صرف اپنے ووٹ بنک کے لئے اس نعرے کی حمایت کی، عملاً کسی نے کچھ نہیں کیا۔ تحریک انصاف نے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے یہاں علیحدہ سیکرٹریٹ بنا دیا۔ لولا لنگڑا سیکرٹریٹ آج تک یہاں کے عوام کو رَتی بھر احساس نہیں دِلا سکا کہ اُن کا تخت لاہور میں کوئی حصہ مقرر ہو چکا ہے۔ سردار اور وڈیرے ہر اقتدار میں آنے والی جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں، پھر یہاں کی محرومی دور کرنے کا چورن بیچتے ہیں اور عرصہ گذار کر پھر محرومی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔
اس پس منظر میں وزیراعظم شہباز شریف نے ڈیرہ غازیخان آ کر ایک عوامی جلسہ کیا ہے تو اُن کے پاس بھی جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے کا آزمودہ بیانیہ ہی تھا۔البتہ انہوں نے چند ایک ایسے اعلان کر دیئے ہیں،اُن پر عملدرآمد ہو گیا تو یہاں کے عوام کو کچھ ریلیف ضرور ملے گا، مثلاً انہوں نے ڈیرہ غازیخان میں کینسر ہسپتال بنانے اور راجن پور میں یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، موٹروے کو راجن پور اور دیگر علاقوں تک توسیع دینے کی خوشخبری بھی سنائی ہے۔یہ اچھے اعلان ہیں، مگر جنوبی پنجاب کو اس سے بہت بڑھ کے منصوبے دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے وزیراعلیٰ مریم نواز کی تعریف کی ہے کہ وہ پنجاب کے عوام کی خدمت کر رہی ہیں،لیکن جناب عرض یہ ہے کہ پنجاب میں ابھی تک جنوبی پنجاب کو پوری طرح شامل نہیں کیا گیا، سارے منصوبے ابھی تک لاہور میں گردش کر رہے ہیں، وہاں سے نکلیں گے تو اس پسماندہ پنجاب تک پہنچیں گے۔مریم نواز کو اب اپنا اور وسائل کا رُخ جنوبی پنجاب کی طرف کرنا چاہئے،اُن کے بعض اقدامات واقعی غیر روایتی ہیں تاہم جنوبی پنجاب کے زخم بہت گہرے ہیں،اُن پر مرہم رکھنے کے لئے کم از کم ہر ماہ مریم نواز کو پوری کابینہ اور سرکاری مشینری کے ساتھ کبھی ملتان، کبھی بہاولپور اور کبھی ڈیرہ غازی خان میں آنا چاہئے، اس سے نہ صرف اِس خطے کے عوام میں احساسِ شراکت پیدا ہو گا بلکہ مسائل کے حل کی سرعت کے ساتھ سبیل بھی نکل آئے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف ڈیرہ غازیخان کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے اپنی وہی جوش خطابت واپس لے آئے جس کے لئے مشہور ہیں۔انہوں نے لہو تو گرمایا ہی ساتھ ہی ایک ایسی بات کہہ گئے جو شاید ایسے جلسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔عوام اگرچہ پاک بھارت کرکٹ میچ میں پاکستان کی فتح کے منتظر تھے تاہم شہباز شریف نے جلسے میں یہ کہہ کر چھکے لگا دیئے کہ ترقی کی دوڑ میں بھارت کو پیچھے نہ چھوڑا تو میرا نام شہباز شریف نہیں، بلے بلے جی بلے بلے،اچھی بات ہے کہ دونوں ممالک میں ترقی کا مقابلہ ہو اور جنگ و قتال سے نکل آئیں۔بھارتی اِس بات پر خوش ہو رہے ہوں گے کہ دیکھو پاکستانی وزیراعظم یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ بھارت ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گیا ہے اب اُسے پیچھے چھوڑنا ہے،حالانکہ بھارت اب اتنا بھی آگے نہیں کہ بھارتی اس پر شیخیاں بگھاریں۔وہاں غربت اور خط ِ غربت سے نیچے آبادی پاکستان سے زیادہ ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ٹیکنالوجی اور صنعتی میدان میں بھارت نے ترقی کی ہے۔اب اگر اُسی شعبے میں اسے پیچھے چھوڑنا ہے تو پھر یہاں بہت سے ناگزیر کام کرنے ہوں گے، صنعتوں کے فروغ کے لئے سہولتیں دینی ہوں گی، ٹیکسوں کے بے رحمانہ نظام کو بدلنا ہو گا، کرپشن کو نکیل ڈالنی پڑے گی جب تک ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں قیمتوں اور معیار کے حوالے سے مقابلے کے قابل نہیں ہوتیں اُس وقت تک ہم کسی ملک کو پیچھے چھوڑنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنا ہدف جاپان، چین، سنگاپور، حتیٰ کہ یورپ جیسے ممالک کو پیچھے چھوڑنے کا بنانا چاہئے۔ کئی شعبوں میں پاکستان آج بھی کئی ممالک سے آگے ہے،کھیلوں کے سامان، طبی آلات، ٹیکسٹائل اور ہینڈی کرافٹ میں پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ ہے،اسے بڑھانے کی ضرورت ہے، جس کے لئے سرمایہ کار دوست پالیسیوں کو اپنانا ہو گا، کیا شہباز شریف اس کے لئے تیار ہیں۔
٭٭٭٭٭