پاکی داماں اور سیاسی چکر بازیاں!
ایک بہت محترم،دانشور کالم نویس نے اکبری منڈی اور موچی دروازے کا نام لے کربہت بڑی بات کہہ دی بلکہ پھبتی کسی ہے، میرے لئے وہ صاحب ِ علم ہونے کے باعث قابل احترام ہیں۔ اگرچہ صفدر میر، منو بھائی،احمد بشیر اور ان کے ہم عصر حضرات سے کہیں جونیئر ہیں بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ وہ صفدر میر کے پیرو کار ہو سکتے ہیں لیکن عملی سطح ایک سوالیہ نشان ہے۔میں بھی اب بوڑھا ہوں اور وضعداری ہمیں ورثہ میں ملی،اِس لئے نام لئے بغیر عرض کرتا ہوں کہ الزام اور گالی آسان ہے اس لئے وہ صاحب ِ علم ہوتے ہوئے ایسی باتوں سے گریز کریں جن سے اس لاہور کے پرانے باسیوں کی دِل آزاری ہو۔میرا اپنا تعلق بھی اکبری منڈی اور موچی دروازے سے ہے اور پیدائشی لاہوری شہری ہوں،ہمارے اس شہر اور اِس علاقے کی بڑی روایات ہیں۔یہاں عبداللہ ملک اور رؤف ملک جیسے ترقی پسند ترین دانشور پیدا ہوئے تو اِسی علاقے نے غازی علم الدین شہید کو بھی جنم دیا۔ موچی دروازہ (جو آج حکمرانوں کی غفلت اور لاپرواہی سے اُجڑا ہوا ہے) تحریک پاکستان کا مرکز تھا،جہاں سے سول نافرمانی کے جلوس نکلتے تھے اور پھر یہی شہر کا اندرونی علاقہ ہے جہاں سے1953ء میں تحریک ختم نبوتؐ شروع ہوئی اور نوجوانوں نے تقدس رسالتؐ پر جانیں قربان کیں۔اکبری منڈی، بازار نوہریاں اور محلہ شیعاں وہ علاقے ہیں جہاں مذہبی روا داری اپنے عروج پر رہی، پھر جسے دشمنوں کی نظر کھا گئی۔یہ اکبری دروازہ اس مردِ درویش عالم باعمل کا ہے جو متفقہ طور پر تحریک تحفظ ختم نبوتؐ کے سربراہ چنے گئے اور انہی مولانا ابوالحسناتؒ نے تحریک ختم نبوتؐ کے دوران اکلوتے صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کی سزائے موت کی اطلاع پر سجدہ شکر ادا کیا اور فی البدیہہ کہاں اللہ کی راہ میں خلیل شہید ہو گا۔ محترم کالم نویس کی خدمت میں عرض ہے کہ ان کی تحریروں کا رُخ جس طرف ہے اسی طرف رہیں اگر یوں علاقائی،محلہ واری پھبتی کسیں گے تو یہاں کے پیدائش والے خود بڑے پھکڑ باز ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ ان محلوں میں دوستی کا ایک پیمانہ یہ بھی تھا کہ دوست، دوست سے ملتے تو گالیوں کا بھی تبادلہ کرتے تھے۔میں اِس سے زیادہ کہہ نہیں سکتا کہ وضعداری مانع ہے۔اللہ آپ کو سلامت رکھے اور جہاں آپ نے متھا لگایا ہے وہاں ہی لگے رہیں۔شاید اس طرح آپ کی تسکین ہو جائے۔
یہ گذارش یوں کرنا پڑی کہ ہماری تمام تر کوشش، رواداری اور جبر کے بعد بھی قلم کا رُخ متوازن رکھنے میں ناکامی ہوئی ہے اس کے باوجود وضعداری سے خود کو اعتدال پر رکھنے کی کوشش کروں گا۔میں پہلے بھی عرض کر چکا اور اب پھر گذارش کرتا ہوں کہ دورِ ایوبی سے حالیہ حالات تک میں نے پارلیمانی رپورٹنگ کی اور اسی دوران کورٹس کی بیٹ بھی نبھائی اور انتہائی اہم مقدمات کی تفصیلی رپورٹنگ کی۔ سیاسی رپورٹنگ دم آخر تک نبھائی کہ حالات کے تحت رپورٹنگ سے ادارتی عملے میں شامل ہو کرقلم گھسیٹ بن گیا۔میں نے بار بار اپنے مشاہدات اور تجربات کے حوالے سے عرض کیا کہ سابقہ ادوارِ سیاست، عدل اور روا داری کے حوالے سے بہت ہی اچھے تھے۔ سیاست دان حریف ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے کی تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ وکلاء برادری میں بھی یہی روا داری تھی،جبکہ عدلیہ کا معیار کہیں بہتر تھا۔فاضل جج ریمارکس کی بجائے سوال کرتے اور ان کے فیصلوں میں ریمارکس کی جھلکی بھی نہیں ہوتی تھی۔یہ نہیں کہ وہ دور سو فی صد مثالی تھا لیکن کپڑے بازار میں نہیں دھلتے تھے۔آج تو عدلیہ کے مہربانوں کا ذہن واضح ہو جاتا ہے اور دُکھ کے ساتھ عرض کروں گا کہ تحریک انصاف کی مہربانی سے تقسیم کے اثرات عدلیہ میں بھی واضح محسوس کئے جا رہے ہیں،انصاف دینے والے خود اپنے کئے کو اب آئین کے پس منظر میں تولنے لگ گئے ہیں۔ میں بے شمار مثالیں عرض کر سکتا ہوں۔
ہمارے رانا اکرام ربانی، رانا آفتاب احمد خان اور ان کے ہم عصر کئی حضرات زندہ و حیات ہیں،وہ ایک سے زیادہ بار عوامی حمایت سے نہ صرف رکن اسمبلی بلکہ وزیر بھی رہ چکے۔ سید ناظم حسین شاہ(مرحوم) رانا پھول محمد اور ایسے بیسیوں نام لے سکتا ہوں یہ حضرات ایوان میں مخالف طرف ہوتے، حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان سخت تناؤ ہوتا،جملے بازی بھی ہوتی۔تاہم جب یہ حضرات ایوان سے باہر کیفے ٹیریا میں ہوتے تو مل کر محفل جماتے، خوب گپ ہوتی، فقرے بازی جاری رہتی اور قہقہے گونجتے رہتے، سیاست کو سیاست تک رکھا جاتا تھا، لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔معذرت سے عرض کروں گا کہ اب تو بات حریفانہ نہیں دشمنانہ ہے اور یہ سلسلہ 2014ء سے شروع ہوا۔حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں ہونے سے بھی فرق نہیں پڑا اور بات دشمنی تک آ گئی۔سوشل میڈیا گالی گلوچ سے بھر گیا،ایوان مچھلی منڈی بن گئے، تحریک انصاف والے بھائیوں نے نہ اپنے دورِ اقتدار میں روا داری کا مظاہرہ کیا اور نہ اب کر رہے ہیں۔اب تو قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق بھی کہہ اٹھے کہ اپوزیشن والے حضرات کارروائی میں حصہ نہیں لیتے اور آدھ گھنٹہ تک ہنگامہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ سپیکرایاز صادق نے بتایا کہ انہوں نے حزبِ اختلاف(تحریک انصاف) کے دوستوں سے کہا کہ عوامی مفاد کے مسائل پر تو ایسا نہ کریں لیکن وہ نہیں مانتے اور ان کی منشاء ہے کہ ایوان کی کارروائی نہ چلے۔یہ تو اب مشاہدے کی بات ہے اور جو حضرات زیادہ پُرجوش ہیں ان میں قائد حزبِ اختلاف ایوب گوہر بھی ہیں وہ جنرل ایوب کے پوتے،گوہر ایوب کے صاحبزادے ہیں،گوہر ایوب خود بھی مسلم لیگ(ن) کے رکن رہے اور ایوب گوہر بھی مسلم لیگ(ن) ہی سے انصافیوں میں تشریف لائے اور اب بڑے پُرجوش ہیں اور ہرروز حکومت گرانے آتے ہیں۔
مسلسل توجہ دِلاتے چلے آ رہے ہیں کہ دنیا کے حالات بھی بہتر نہیں اور ہمارے ایسے ملک کے حوالے سے آپ سب لوگ خود بحران،بحران، بحران کی گردان کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے،لیکن صورتحال یہ ہے کہ مذاکرات کی داغ بیل پڑی تو اسے چلنے نہیں دے رہے اور اب الٹی میٹم دے رکھا ہے خود اپنی حالت یہ ہے کہ کارکن اب کم نظر آتے ہیں اور ہر طرف لیڈر ہی لیڈر ہیں۔حتیٰ کہ میڈیا سے بات کرتے وقت ایک دوسرے سے بازی لے جاتے ہیں، ہم تو مسلسل یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو اخلاق و آداب ہی کا خیال رکھا جائے،جن عوام کا نام لے کر سیاست کرتے ہیں ان کے لئے بھی توکچھ بولیں۔ ایوان کو ایسے طریقے سے چلنے دیں کہ آپ کا احتجاج بھی نوٹ ہو جائے اور ملکی، قومی عوامی مسائل پر بات ہو۔ اِس وقت معیشت سنبھلنا شروع ہوئی ہے تو امن بھی ہونا چاہئے۔ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی روش ترک کریں اور پھر تحریک انصاف کو تو گِلہ نہیں ہونا چاہئے کہ عدلیہ سے جتنی ریلیف ان کو ملی اور ملتی ہے وہ ماضی میں کبھی کسی ”مظلوم“ کو نہیں ملی۔ہم نے تو رہنماؤں کو جیل یاترا کرتے ہی دیکھا،کارکنوں کے جسم کوڑوں سے زخمی کئے گئے اور یہ عمل سرعام باغ بیرون موچی دروازہ میں بھی ہوا اور مائیک مظلوم کے سامنے رکھ کر چیخیں سنائی گئیں۔اب تو فاضل جسٹس مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے بھی شاہی قلعہ لاہور کا ذکر کر دیا ہے۔
٭٭٭٭٭